• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جب اس نے رہنا ہی وہیں ہے تو آپ آکے سارا سامان لے جاؤ، میری طرف سے فارغ ہے۔ اور عدت کے گذرنے کے بعد کہنا کہ نہ آئی تو میری طرف سے آپ کو طلاق ہے

استفتاء

گذارش ہے کہ بندہ کی شادی کو قریب ایک سال اور ایک مہینہ ہونے کو ہے جب سے بندہ کی شادی ہوئی ہے اس وقت سے ہی بندہ کے اپنے سسرال والوں سے اختلافات چل رہے ہیں بندہ جب بھی اپنے سسرال گیا ہے وہاں سے آتے ہوئے اکثر ناراض ہو کر اور غصے میں وہاں سے آیا ہے، کئی دفعہ دونوں میاں بیوی میں بھی چھوٹے موٹے جھگڑے ہوتے آئے ہیں، بندہ کی بیوی جب بھی اپنے گھر رہنے کی بات کرتی تھی تو بندہ اپنی بیوی کو یہ کہتا تھا کہ جب میں آپ کو ملانے لے جاتا ہوں تو رہنے کا کیا سوال ہے، جب میں یہ سوال کرتا تھا تو وہ ناراض ہو جاتی تھی، اور بندہ کہتا تھا کہ (1)آپ بھی ایسا کرو وہیں چلی جاؤ جتنا جی چاہے رہ لینا، اس کہنے سے کبھی طلاق کی نیت ہوتی تھی اور کبھی طلاق کی نیت نہیں ہوتی تھی ۔اکثر یہ بات ہو جاتی تھی، ایک دفعہ ایسا ہوا تھا کہ بندہ اپنی بیوی کو ملانے اپنے سسرال لے گیا تھا کہ جب وہاں سے آیا تو ٹھیک تین دن بعد اس کے گھر والے ملنے آئے اور پھر ساتھ لے گئے، بندہ کو اس بات پر بہت غصہ آیا اور بندہ نے دوسرے دن ماموں کو فون کیا اور کہا کہ (2)جب اس نے رہنا ہی وہیں ہے تو آپ آکے اپنا سارا سامان لے جاؤ، میری طرف سے فارغ ہے، اس جملے سے بھی میری نیت طلاق کی تھی۔ اس کے بعد میرے گھر والے اسے وہاں سے لے آئے، لیکن اس وقت دوبارہ نکاح نہ ہوا تھا۔ پھر سلسلہ چلتا رہا، جب بھی میں وہاں جاتا تھا وہاں سے آتے ہوئے جھگڑا کر کے ہی آتا تھا، ہر دفعہ وہی رکنے  رکانے کی بات ہوتی تھی پھر جب بھی میری بیوی وہاں رہنے کی بات کرتی تو میں اسے یہی کہتا تھا کہ (3)آپ اپنا حساب کتاب کر لو وہیں رہ لینا، اس جملے سے بھی میری نیت طلاق کی تھی۔ پھر قریب 25 دن پہلے بندہ اپنی بیوی کو ملانے اپنے سسرال لے گیا تھا پھر وہی سلسلہ آتے ہوئے بیوی سے کیا کہ چلو گھر چلتے ہیں تو وہ رونا شروع ہو گئی ، جب وہ روئی تو میں نے کہا چلو اب رک جاؤ صبح چلیں گے  تو بیوی نے کہا نہیں میں نے ابھی جانا ہے۔ میری سالی میری موٹر سائیکل کی چابی اور کاپی چھپا کے چلی گئی تھی جو نہ ملنے کی وجہ سے ہم نہیں آئے تو پھر قریب 9:15 منٹ پر بندہ کو شدید غصہ آیا اور وہاں سے کسی کو بغیر بتائے آگیا، گھر آنے کے بعد بندہ سو گیا، پھر صبح قریب 5:45 پر بندہ نے اپنے سسرال فون کیا اور کہا میری بیوی سے بات کراؤ، بندہ نے اپنی بیوی سے کہا  آپ ایسا کرو کہ اپنے چاچو کے ساتھ آجانا میں آپ کو کاہنہ سے لے لوں گا، اس نے کہا کہ میں نے  نہیں آنا، آپ خود آؤ مجھے لینے، میں نے پھر کہا آپ کے چاچو ڈیوٹی پر آتے ہیں آپ ان کے ساتھ آجانا میں آپ کو کاہنہ سے لے لوں گا، اس نے کہا کہ میں نے نہیں آنا، بندہ کو غصہ آیا اور بندہ نے کہا (4)’’نہ آئی تو میری طرف سے آپ کو طلاق‘‘ ایسا تین بار کہا، پھر سسرال سے بندہ کو فون آیا کہ آپ آجاؤ اور اپنی بیوی کو لے جاؤ، بندہ ٹھیک 40 منٹ بعد وہاں گیا اور دیکھا کہ بندہ کی بیوی رو رہی ہے، بندہ نے اپنی بیوی کو کہا چلو گھر ، میں آپ کو لینے آیا ہوں، اب بیوی نے کہا میں کیا لینے جاؤں، آپ نے مجھ غلط الفاظ بولے ہیں، پھر بندہ نے اپنی بیوی سے معافی مانگی اور  گھر والوں سے بھی لیکن انہوں نے اسے میرے ساتھ نہیں بھیجا، اور بندہ واپس گھر آگیا اور وہ اس دن سے نہیں آئی۔

وضاحت مطلوب ہے:

’’نہ آئی تو میری طرف سے آپ کو طلاق‘‘ اس جملے سے آپ کے ذہن میں خاص اسی دن اپنے چاچو کے ساتھ آنا مراد تھا یا

مطلق کہ جب بھی آؤ تو چچا کے ساتھ آنا، یہ مراد تھا۔

جواب وضاحت:

اصل میں رات کو میں سسرال والوں سے ناراض ہو کر آیا تھا اور میرے ذہن میں یہ تھا کہ میں اب سسرال نہیں جاؤں گا، اسی وجہ سے میں نے بیوی کو فون کیا تھا کہ تم چچا کے ساتھ آجانا میں نہیں آؤں گا، لیکن اس نے آگے سے انکار کیا تو میں نے کہا کہ ’’نہ آئی تو میری طرف سے طلاق‘‘ لیکن اس وقت میرے ذہن میں کوئی خاص دن معین نہ تھا بلکہ مراد یہ تھا کہ جب بھی آؤ چچا کے ساتھ آجانا میں نے لینے نہیں آنا، لیکن بعد میں سسرال والوں کا فون آنے کی وجہ سے میں چلا گیا۔

وضاحت مطلوب ہے:

پہلی لڑائی جس میں ماموں سے آپ نے کہا کہ ’’میری طرف سے فارغ ہے‘‘ اور موجودہ لڑائی میں کتنا عرصہ ہے؟ اور کیا تین ماہواریاں اس درمیان گذر چکی تھیں؟

جواب وضاحت:

پہلی اور موجودہ لڑائی کے درمیان تین مہینے اٹھارہ دن کا فاصلہ ہے، اور تین ماہواریاں بھی گذر چکی ہیں۔

نوٹ: اس وقت فی الحال ہمارے لیے لڑکی یا لڑکی کے گھر والوں سے رابطہ مشکل ہے کیونکہ وہ یہ سمجھ کے کہ آخری دفعہ لڑائی میں تین طلاقیں واقع ہو گئیں ہیں اس لیے اب دوبارہ نکاح کی کوئی صورت نہیں، انہوں نے بالکل رابطہ ختم کر دیا ہے البتہ اگر گنجائش ہو گی تو ان سے بات چلائی جا سکے گی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے ان الفاظ سے کہ ’’آپ بھی ایسا کرو وہیں چلی جاؤ جتنا جی چاہے رہ لینا‘‘ کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ یہ الفاظ اپنے سیاق و سباق کے لحاظ سے طلاق کے لیے نہ صریح ہیں اور نہ کنایہ۔اس کے بعد شوہر کے یہ کہنے سے کہ  ’’جب اس نے رہنا ہی وہیں ہے تو آپ آکے سارا سامان لے جاؤ، میری طرف سے فارغ ہے‘‘ ایک طلاق بائنہ واقع ہو گئی جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا ہے، اس کے بعد شوہر کے ان الفاظ سے کہ ’’نہ آئی تو میری طرف سے طلاق‘‘ کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ یہ الفاظ سابقہ طلاق کی عدت ختم ہونے کے بعد کہے گئے ہیں۔ لہذا مذکورہ صورت میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا ہے۔ میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو دوبارہ سے نیا نکاح کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ جس میں دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے اور مہر بھی دوبارہ مقرر ہو گا۔

نوٹ: یہ جواب شوہر کے بیان کے مطابق ہے۔ بیوی کا بیان اگر اس کے خلاف ہوا تو یہ جواب کالعدم ہو گا اور میاں بیوی کے تحریری بیان کے مطابق جو جواب ہو گا وہی قابل اعتبار ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved