• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹنا، خط کروانا اور مونچھوں کو تراشنا

  • فتوی نمبر: 8-184
  • تاریخ: 17 فروری 2016

استفتاء

کیا اسلامی شرع کے مطابق روز مرہ زندگی میں (بغیر حج و عمرہ) داڑھی کو ترشوانا، داڑھی کا خط کروانا، داڑھی مشت سے زیادہ بالوں کو تراشنا، الیکٹرک مشین سے خط کرنا، اور مونچھوں کو تراشنا وغیرہ جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

داڑھی کو ایک مشت یعنی چار انگل سے کم کروانا جائز نہیں، خواہ کسی بھی طریقے سے کم کروائے۔ نیز خواہ حج و عمرہ میں کم کروائے یا روز مرہ کی زندگی میں کم کروائے۔ البتہ ایک مشت یعنی چار انگل سے زائد داڑھی کے بالوں کو کاٹ سکتے ہیں۔ نیز خط بنوانا اور مونچھوں کو تراشنا بھی جائز ہے۔

عن ابن عمر رضي الله عنه عن النبي صلی الله عليه و سلم قال خالفوا المشركين  وفروا اللحی و أحفوا الشوارب. (البخاري: 2/ 875)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کٹواؤ۔

عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده عن النبي صلی الله عليه وسلم كان يأخذ من لحيته من عرضها و طولها. (الترمذي: 2/ 565)

حضرت عمرو بن شعیب سے مروی ہے کہ آپ ﷺ اپنی داڑھی مبارک کو لمبائی اور چوڑائی میں سے کچھ کاٹ لیتے تھے۔

و كان ابن عمر رضي الله عنهما إذا حج أو اعتمر قبض علی لحيته فما فضل أخذه. (البخاري: 2/ 875)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے، تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں لیتے، پس جو بال مٹھی سے زائد ہوتے، ان کو کاٹ لیتے۔

و في شرح الشيخ إسماعيل: لا بأس بأن يقبض علی لحيته فإذا زاد علی قبضته شيء جزه كما في القنية، هو سنة كما في المبتغی، و في المجتبی و الينابيع وغيرهما لا بأس بأخذ أطراف اللحية إذا طالت و لا بنتف الشيب إلا علی وجه التزين و لا بأخذ من حاجبه و شطر وجهه ما لم يشبه فعل المخنثين و لا يحلق شعر حلقه و عن أبي يوسف لا بأس به. (رد المحتار: 3/ 456)

و اختلف في المسنون في الشارب هل هو الحلق و القص، و المذهب عند بعض المتأخرين من مشائخنا أنه القص، قال في البدائع و هو الصحيح و قال الطحاوي القص حسن و الحلق أحسن و هو قول علمائنا الثلاثة. (رد المحتار: 3/ 660) ………….. فقط و الله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved