• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

“مشارکہ ہوم” اسکیم

استفتاء

گذارش ہے کہ میرا بیٹا ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا ہے، اس نے مکان بنانے کے لیے کمپنی سے قرضہ مانگا ہے، کمپنی نے جواب میں اسے کہا کہ کسی بینک سے تقریباً 35 لاکھ روپے تک کا وہ قرضہ لے سکتا ہے، جس پر مارک اپ کا 70 فیصد کمپنی ادا کرے گی، جبکہ 30 فیصد وہ خود ادا کرے گا، بیٹے نے اس کے لیے اسلامی بینک سے رابطہ کیا، جن کے مطابق اس قرضے میں سود شامل نہیں ہوتا، جبکہ قرضے کی رقم کے مطابق حصے کیے جائیں گی کہ جو مکان یا زمین کے  ہو سکتے ہیں، بینک ان حصوں کا کرایہ لے گا، جبکہ قرض لینے والا ہر مہینے ان حصوں میں سے کچھ یا ایک زیادہ حصے خریدے گا تو اس کا اس مہینے کا پورا کرایہ معاف کر دیا جائے گا، اس میں کچھ رقم تکافل کی مد میں بھی ادا کی جائی گی۔ برائے مہربانی یہ فرمائیں کہ اس پراسس میں سود تو شامل نہیں ہے، اور یہ کہ یہ حلال ہے یا نہیں؟ یا اس کا کوئی بھی حصہ حرام کی مد میں تو نہیں آتا؟ بینک کی طرف سے جاری کردہ فتوے کی کاپی لف ہے۔

وضاحت: گذارش ہے کہ میرا موجودہ گھر 35 سال پرانا بنا ہوا ہے، اور سڑک اور گلی کی سطح سے کافی نیچے ہو گیا ہے، گھر کی حالت خاصی خستہ حال ہے، اب ہم یہ گھر بیچ کر نیا لینا چاہتے ہیں یا پھر مجبوراً اسے گرا کر نیا بنانا پڑے گا۔ میری مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ میں مزید پیسے مہیا کر سکوں، بیٹا میر جس کمپنی میں کام کرتا ہے، ان کے ہاں یہ دستور ہے کہ تقریباً تیس لاکھ روپے وہ بینک سے دلوا دیتے ہیں، جبکہ میرا خیال ہے کہ بجائے عام بینک سے لینے کے اسلامی بینک سے لیا گیا قرضہ زیادہ بہتر اور سود سے پاک ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

بینک الفلاح کی طرف سے متعارف کردہ اسکیم “مشارکہ ہوم” جس کی بنیاد “شرکت متناقصہ” پر گیا ہے۔

اس سکیم میں مکان بنانے یا خریدنے کے لیے کچھ رقم زید فراہم کرتا ہے اور باقی بینک فراہم کرتا ہے۔ دونوں اپنے اپنے فراہم کردہ سرمایے کے تناسب سے اس مکان کے مالک بنتے ہیں یعنی دونوں میں شرکت ملک قائم ہو جاتی ہے، بینک مکان میں اپنی ملکیت کے مثلاً 100 حصے (اکائیاں) بناتا ہے۔ زید بینک کی ملکیت کا ایک حصہ ہر ماہ بینک سے خریدتا ہے اور اس کی طے شدہ قیمت بینک کو ادا کرتا ہے اور باقی حصوں کا بینک کو کرایہ ادا کرتا ہے۔

یہاں تک تو معاملہ درست ہے، لیکن بینک اس مکان پر ملکیت کے تناسب سے اپنے لیے اور زید کے لیے تکافل کرواتا ہے، اور زید کو ہر ماہ اس مد میں بھی متعین ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔ چونکہ تکافل یعنی اسلامی انشورنس اور مروجہ انشورنس میں چنداں فرق نہیں، کیونکہ اس میں بھی سود جوئے اور غرر کے معنیٰ پائے جاتے ہیں۔ لہذا یہ معاملہ نا جائز ہوا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved