• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اجارہ پر لیے ہوئے دفتر میں شراکت

استفتاء

میں نے کچھ عرصہ قبل کاروبار شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ اس پر کام شروع کیا اور Co- working space  بنانے کا ارادہ کیا یعنی اسی جگہ جہاں لوگوں کو بیٹھ کر کام کرنے کی سہولت ہو گی جس میں دفاتر، اور میٹنگ ہال وغیرہ بھی ہو گا۔ جب اس کی ابتدائی ورکنگ کی تو اندازہ ہوا کہ شاید اس میں شرکت کی ضرورت پڑے کیونکہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے۔ بہر حال اس پر کام شروع کیا اور خود سے جگہ دیکھی اور وہ پسند آئی اور ساتھ ہی کاروبار کا نام، ویب سائٹس، ڈیزائن وغیرہ پر کام شروع کر دیا۔ جگہ پسند کرنے کے بعد پھر شرکت کے لیے ایک دوست سے رابطہ کیا۔ ان کو پراجیکٹ کے بارے میں بتایا اور یہ بھی بتایا کہ جگہ بھی دیکھی ہے، انہوں نے کہا یہ کچھ ورکنگ تیار کریں تو دیکھتے ہیں، ورکنگ بنا کر ان کو دی انہوں نے دیکھ  کر انویسٹ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن مصروفیت کی وجہ سے جگہ دیکھنے اور بات کو طے کرنے کے لیے نہ آسکے، ایک آدھ دفعہ انہوں نے ایک اور جگہ کا تذکرہ بھی کیا جس کا کرایہ کم تھا لیکن مصروفیت کی وجہ سے میرے ساتھ وہ جگہ دیکھنے نہ جا سکے۔

میں چونکہ نوکری چھوڑ چکا تھا اور کوئی کام جلد شروع کرنا چاہتا تھا اس لیے ساتھیوں سے مشورہ کر کے اور استخارہ کر کے اس نیت سے کام کا آغاز کیا کہ پیسوں کا بندوبست انشاء اللہ ہو جائے گا اور ضرورت پڑی تو ادھار لے لوں گا، اور مزید ضرورت پڑی تو شرکت کر لیں گے۔ میں نے جگہ کرایہ پر لے لی اور کام شروع کیا، اور درج ذیل اخراجات کیے:

ان اخراجات کی کل رقم تقریباً 550000 کے قریب ہے۔

1۔ ہال کا ایڈوانس کرایہ 2۔ ہال کے لیے سیکورٹی ڈپوزٹ        3۔ صفائی ستھرائی کے اخراجات

4۔ لکڑی کا کام (سامان اور مزدوری)       5۔ شیشے کا کام      6۔ بجلی کی وائرنگ 7۔ بجلی کی لائٹس اور پنکھے

8۔ انٹرنیٹ کی ایک سال کی فیس  9۔ سیلنگ کا کام (سامان و مزدوری)    10۔ پینٹ کا کام (سامان مزدوری)

11۔  یوپی ایس، بیٹریز  12۔ دفتری میز    13۔ دفتری کرسیوں کے لیے ایڈوانس

ان اخراجات میں سے میں نے کچھ رقم اپنے ان دوستوں سے بھی لی جو میرے اس  Co-working space  کے کسٹمر تھے۔ ان سے یہ رقم ایڈوانس کرائے کی مد میں لی اور یہ طے پایا کہ کرایہ کا آغاز اسی وقت سے ہو گا جب جگہ تیار ہو جائے گی۔ اس وقت تک میں نے  (1) بزنس کا نام بھی طے کر لیا، 2۔ اس کی ویب ڈومین بھی خریدی، 3۔ ویب سائٹس بھی بنائی۔ 4۔ کچھ ابتدائی ڈیزائننگ بھی کروالی اور 5۔ اس کی مارکیٹنگ بھی شروع کر دی۔ فیس بُک پر بھی اشتہاری مہم چلائی۔ یہ سب اخراجات اوپر دیے گئے اخراجات میں شامل نہیں ہیں۔

ان سب میں جتنے کنٹریکٹ یا رسیدیں ہیں وہ میرے نام سے ہیں، اس سب کاموں کے درمیان ایک دفعہ میں نے  ان صاحب کو بتایا کہ میں نے تو جگہ کرایہ پر لے لی ہے۔

اب اس کے بعد وہ صاحب آئے اور کام ہوتے ہوئے دیکھا اور شرکت کی خواہش ظاہر کی جس پر میں نے ان کو درج ذیل شرائط لکھ کر دیں:

1۔ کاروبار میں انویسٹمنٹ دو افراد کریں گے:

*** (سائل)………………..           60%           ………………………..600000 (موجودہ رقم)

***                 ………… % 40          …………… 400000

2۔ سارے کاروبار کو چلانے کی ذمہ داری *** کی ہو گی۔

3۔ کاروبار سے متعلقہ تمام فیصلے *** کرے گا، ہاں اس میں یاسر صاحب سے مشاورت کی جا سکتی ہے۔

4۔ اور یہ کہ یاس کی یہ سرمایہ کاری کاروبار کے صرف اس پراجیکٹ تک محدود ہو گی (یہ پراجیکٹ جوہر ٹاؤن میں ہے)

5۔ *** اگر چاہے تو کوئی نیا پراجیکٹ اسی نام سے خود یا کسی اور شریک کے ساتھ چلا سکتا ہے، اس کے لیے وہ یاسر سے پوچھنے کا پابند نہیں ہو گا۔

6۔ ماہانہ اخراجات پورے نہ ہونے کی صورت میں دونوں فریق 40: 60 کی شرح سے پیسے ادا کریں گے۔

7۔ اور اگر مزید سرمایہ کی ضرورت پڑی تو وہ بھی 40: 60 کی شرح سے دونوں فریق ادا کریں گے۔

8۔ منافع کی شرح درج ذیل ہو گی:

***…………… %70

***…………….%30

شرح منافع میں یہ فرق اس لیے ہے کہ *** کاروبار کو ٹائم دے گا اور دیکھ بھال کرے گا۔

9۔ اگر کوئی فریق شرکت کو ختم کرنا چاہے تو اس کی رقم کا حساب اس وقت موجود اثاثوں کی قیمت کے حساب سے لگایا جائے گا۔

10۔ اس صورت میں *** کا پہلا حق ہو گا کہ وہ رقم ادا کر کے کاروبار اپنے پاس رکھے۔ اور اگر وہ اپنے حق سے دست بردار ہو تو پھر یاسر ادائیگی کے بعد کاروبار حاصل کر سکتا ہے۔

11۔ بہر صورت میں اس کا نام وغیرہ *** کی ملکیت کی شمار ہوں گی۔

12۔ مارکیٹنگ کے اخراجات *** خود برداشت کرے گا اور کاروبار میں شامل نہیں کیے جائیں گے۔ اس طرح کیے جا چکے اخراجات رجسٹریشن اور شروعات سے متعلقہ شامل نہیں کیے گئے۔

13۔ چونکہ *** خود بھی اس Co-working space  کو بطور اپنے  اکاؤنٹس والے علیحدہ بزنس کے کاروباری دفتر کے طور پر استعمال کر رہا ہو گا اس لیے وہ تین افراد تک کوئی پیسے ادا نہیں کرے گا، ہاں تین سے زیادہ کے پیسے ادا کرنے ہوں گے یا جیسے باہمی طور پر فریق طے کریں۔

14۔ کیونکہ *** کام کو دیکھے گا تو وہ بجلی، اور باقی کاروباری مقاصد کے لیے ضروریات استعمال کر رہا ہو گا، جس کی اس کو اجازت ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سائل جس انداز سے شرکت کرنا چاہتا ہے، یہ تو درست نہیں تاہم اس کے درست ہونے کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ  جو چیزیں *** پہلے سے خرید چکا یا سروسز کی صورت میں حاصل کر چکا ہے ان میں سے جو اشیاء قابل فروخت ہیں ان کا 40 فیصد حصہ فریق دوم کو فروخت کر دے۔ اور جو چیزیں اجارہ کی ہیں ان کو 40 فیصد اجارہ پر دے دے۔ چونکہ *** نے چیزیں کرائے پر لینے کے بعد ان میں (بصورت صفائی و رنگ روغن وغیرہ) اضافہ بھی کیا ہے، اس لیے اجرت کا تناسب بڑھ بھی سکتا ہے۔

اس طرح کرنے سے اعیان اور منافع میں فریقین کی چالیس اور ساٹھ کے تناسب سے شرکت ملک بن جائے گی جس کے فوائد اور ذمہ داریاں ملکیتی تناسب سے فریقین پر عائد  ہوں گی۔ پھر اس کے بعد*** چونکہ کام بھی کرے گا اس لیے وہ اپنے لیے اصیل اور فریق دوم کا اجیر ہو گا، اور اس کی اجرت فریق دوم کے ذمے ہو گی اور اس کی مقدار فریق دوم کے نفع کا 25 فیصد ہو گی۔ اور اس طرح نتیجتاً *** کی آمدن%60 کی بجائے %70 ہو جائے گی۔ واضح رہے تناسب سے اجرت طے کرنا جائز ہے قیاساً علیٰ المضاربۃ۔

في المحيط (11/342):

قال محمد في رجل آجر نصف داره مشاعاً من اجنبي لم يجز، و إذا سكن المستأجر فيها يجب أجر المثل، وهذا قول أبي حنيفة رحمه الله، و قال أبو يوسف و محمد و الشافعي رحمهم الله يجوز و إذا سكن المستأجر فيها يجب المسمى.

نوٹ: یہ تو معاملہ کے بنیادی  ڈھانچے کے بارے میں تفصیل ہے۔ البتہ معاہدے کی شقوں میں سے چند شقیں غلط ہیں چنانچہ

شق نمبر 10 میں اثاثے خریدنے کا اولین حق اپنے لیے محفوظ کرنے کی شرط درست نہیں، یہ حق دونوں کو یکساں ہو گا۔ اسی طرح شق نمبر 13 میں *** کا اپنے دوسرے کاروبار کے لیے 3 افراد تک جگہ کا بلا عوض استعمال بھی  درست نہیں بلکہ *** اس استعمال میں 40 فیصد کرایہ فریق دوم کو دینے کا پابند ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved