- فتوی نمبر: 6-151
- تاریخ: 17 ستمبر 2013
استفتاء
ایک شخص اپنی مصنوعات مختلف کمپینوں میں فروخت کرتا ہے، اکثر کمپنیوں میں یہ ہوتا ہے کہ کمپنی کا وہ ملازم جس کو کمپنی نے ریٹ طے کرنے اور چیز کو کمپنی کے لیے خریدنے پر رکھا ہوا ہے، جب ہم اس کے پاس اپنی مصنوعات لے کر جاتے ہیں تو وہ ہم سے یہ کہتا ہے کہ میں اس کمپنی میں آپ کی مصنوعات اتنے ریٹ پر بکوا دیتا ہوں، لیکن اس کے عوض میں آپ سے دس فیصد لوں گا۔ انکار کی صورت میں اکثر کی طرف سے جواب مل جاتا ہے کہ آپ کا مال نہیں خریدیں گے، جس سے کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے۔
اور بسا اوقات بعض کمپنیوں کے مالک کو ملازم کی اس صورت حال کا علم ہوتا ہے، اور بعض کمپنیوں میں مالک کو علم نہیں بھی ہوتا۔ اس صورت حال کے پیش نظر اب جب بھی کمپنی میں مال جاتا ہے تو ہمیں اس شخص کو اس کا دس فیصد دینا پڑتا ہے، کیا مذکورہ صورت میں ہمارا اس شخص کو رقم دینا شرعاً درست ہے؟ نیز کمپنی کے مالک کو اپنے ملازم کی صورت حال معلوم ہونے یا معلوم نہ ہونے سے حکم میں فرق تو نہیں پڑے گا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
کمپنی کے ملازم کا مصنوعات فروخت کرنے والوں سے کمیشن لینا رشوت ہے اور شرعاً نا جائز ہے۔ کمپنی کے مالک کو اپنے ملازم کی اس صورت حال کے معلوم ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
رشوت دیے بغیر اگر مصنوعات نہ بکتی ہوں تو تفصیل سے لکھئے کہ آمدنی کتنی رہ جاتی ہے؟ کیونکہ یہ مسئلہ تو اس وقت بھی کھڑا ہو
گا جب سب ہی کمپنیوں کے ملازم دس فیصد رشوت لینا شروع کر دیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved