- فتوی نمبر: 6-232
- تاریخ: 23 دسمبر 2013
- عنوانات: مالی معاملات > زراعت و زمینداری
استفتاء
میں ایک دکاندار ہوں اور کپڑے کا کام کرتا ہوں، میرے پاس ایک صاحب نے کچھ مال جس کی مالیت تقریباً ایک لاکھ روپے بنتی ہے برائے فروخت رکھوایا تھا اور یہ معاملہ طے ہوا تھا کہ اگر بِک جائے تو پیسے ادا کر دیں گے اور اگر نہ بِکا تو مال واپس اٹھا لیں گے، اور جتنا بے گا اس سے پہلے ہم ادا کریں گے باقی مال وہ واپس اٹھانے کے پابند ہوں گے۔ اتفاق سے میری دکان میں چوری ہو گئی ہے اور اس میں میرے مال کے ساتھ وہ مال بھی چوری ہو گیا ہے، اس میں سے تین سوٹ باقی بچ گئے ہیں۔ اب ہمارے لیے شرع میں کیا حکم ہے؟ کہ ہم ان کے ساتھ کیا معاملہ کریں؟
نوٹ: ہمارا مال اور ان صاحب کا رکھوایا ہوا مال اگرچہ رکھا ایک ہی جگہ تھا لیکن دونوں کی اپنی پہچان الگ تھی، وہ ایک قسم کا کپڑا تھا، جبکہ ہمارے پاس اس قسم کا کپڑا نہیں تھا، وہ ریشمی کپڑا تھا اور ہمارا ٹوٹل کام سوتی کپڑے کا تھا۔
چوری صبح 7 بجے کے قریب ہوئی، سات بجے تک گارڈ (پہرے دار) بھی ہوتا ہے۔ مال بھی دکان کے اندر رکھا تھا۔ تالے وغیرہ لگے ہوئے تھے، ہماری کوئی غلطی نہیں ہے، ہمیں خود بھی سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ کیسے ہوا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں مال آپ کے پاس امانت کی حیثیت میں تھا، اگر اس کے چوری ہونے میں آپ کی کوتاہی یا غفلت کو دخل نہیں تو آپ اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved