• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بینک کے ساتھ عقد تورق

استفتاء

محترم و مکرم حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ

گذارش ہے کہ بندہ کو مکان بنانے کے سلسلہ میں قرض کی ضرورت ہے جس کے لیے بندہ سعودیہ کے ایک بنک سے ’’عقد تورق‘‘ کے ذریعے پیسے لینا چاہتا ہے۔ عقد تورق کی بنیادی تفصیل یہ ہے کہ

بنک عقد تورق کے لیے درخواست دہندہ کی درخواست کے بعد فوزان نامی کمپنی سے ایک مخصوص نوع کی لکڑی خریدے گا۔ بعض اوقات بنک درخواست سے پہلے بھی یہ لکڑی خرید کر فوزان کمپنی کے گودام ہی میں رہنے دیتا ہے۔ اور پھر بنک یہ لکڑی درخواست دہندہ کو مرابحہ مؤجلہ کے عقد کے تحت فروخت کر دے گا، فروخت کرنے کے بعد خریدار کو اختیار ہے کہ چاہے تو وہ یہ لکڑی فوزان کمپنی کے گودام سے اٹھا کر مارکیٹ میں جہاں چاہے فروخت کر دے، اور چاہے تو فوزان کمپنی سے اس لکڑی کو فروخت کرنے کے لیے وکالت کا عقد کر لے اور فوزان کمپنی اس کا وکیل ہونے کی حیثیت سے یہ لکڑی مارکیٹ میں کسی کو فروخت کر دے۔

یاد رہے کہ فوزان کمپنی یہ لکڑی اس بنک کو فروخت نہیں کرے گی جس سے درخواست دہندہ نے یہ لکڑی خریدی ہے۔

نوٹ: بنک کے ساتھ مرابحہ مؤجلہ میں یہ بات بھی ہے کہ اگر بغیر تحریری اطلاع کے کوئی ایک قسط مؤخر ہوئی تو بندہ کو تقریباً 75 ریال صدقہ کی مد میں بنک کو دینے پڑیں گے  جن کو بنک صدقات کی مد میں از خود خرچ کرے گا۔ اور اگر تین مسلسل قسطیں مؤخر ہوئیں تو پھر آئندہ کے لیے قسط کا معاملہ ختم ہو جائے گا اور باقی تمام قسطیں فی الفور ادا کرنی پڑیں گیں۔ باقی عملاً قسط کی تاخیر کی بات پیش نہیں آئے گا کیونکہ بندہ کی ماہانہ تنخواہ اسی بنک میں آئے گی اور بنک اپنی قسط کاٹ کر باقی تنخواہ بندہ کو دیدے گا۔

سوال یہ ہے کہ کیا میں بنک کے ساتھ ’’تورق‘‘ کا معاملہ کر سکتا ہوں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

’’عقد تورق‘‘  کا جو طریقہ سوال میں مذکور ہے یہ طریقہ جائز اور درست ہے۔ لہذا اس طریقے کے مطابق آپ بنک سے تورق کا معاملہ کر سکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی لکھتے ہیں:

خلاصة البحث: 1. التورق أن يشتري الرجل سلعة بثمن مؤجل أكثر، ويبيعها من شخص ثالث بثمن عاجل أقل، فيحصل على نقود ليسدّ بها حاجته.

  1. الفرق بين التورق والعينة أن المتورق يبيع السلعة من شخص ثالث، والعينة أن تباع السلعة إلى البائع الأول نفسه.
  2. في جواز التورق روايتان عن الإمام أحمد بن حنبل، أظهرهما الجواز، وبه أخذ المحققون من الحنابلة، وذهب الإمام ابن تيمية وتلميذه الحافظ ابن القيم رحمهما الله إلى عدم جوازه.

4.التورق جائز حسب قواعد الشافعية، حيث إنهم أجازوا العينة الصريحة، فالتورق أولى بالجواز.

  1. المالكية شددوا في حرمة العينة، ولكنهم اشترطوا لتحقق العينة أن ترجع السلعة إلى البائع الأول، فلو لم ترجع إليه، وإنما باعها المشتري من ثالث، فلا حرمة.
  2. بعض المتأخرين من الحنفية اعتبروا التورق عينة فذهبوا إلى كراهتها، ولكن المختار قول الإمام ابن الهمام رحمه الله: إن العينة إنما يتحقق إن رجعت السلعة إلى البائع الأول، أما إذا باعها المشتري في السوق فهو جائز بلا كراهة، لكنه خلاف الأولى. وهذا القول اختاره جمهور الحنفية.
  3. وعلى أساس القول المختار في المذاهب الأربعة، فإن التورق جائز، لكن القرض (بدون فائدة) أفضل منه.
  4. هذا إذا كان التورق لم يقترن بملابسات أخرى.
  5. إن وكل المصرف المتورق نفسه بشراء البضاعة نيابة عنه، ثم الشراء لنفسه، فهذا غير جائز، لأن الوكيل لا يتولى طرفي البيع، أما إذا وكله للشراء فقط، ثم إن اشتراها من المصرف بعقد مستقل بإيجاب وقبول، فهذا العقد صحيح، ولكن لا يخلو من كراهة.
  6. إن وكل المتورق المصرف ببيع السلعة إلى ثالث نيابة عن المتورق فإن كان التوكيل مشروطاً في عقد البيع فإنه عقد فاسد لا يجوز، وإن لم يشترط التوكيل في البيع، وإنما وكله بعد إتمام الشراء، فإن العقد صحيح، ولكنه لا يخلو من كراهة.
  7. التورق عن طريق بورصات السلع الدولية معرض لفساد العقد في كثير من الأحوال، لفقدان الشروط الشرعية لصحة العقد.
  8. لئن استوفيت الشروط الشرعية المفصلة في البحث فإنه يصح العقد ولكنه لا ينصح بالتوسع في مثل هذه العمليات نظراً إلى المفاسد المحتملة. (بحوث في قضايا فقهية معاصرة: 2/ 71

-72)………………………………………………………….. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved