• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

گلے میں تعویذ لٹکانا

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں کہ تعویذ کا لٹکانا اس زمانے میں شرک ہے یا جائز ہے جیسا آج کے عوام میں مشہور ہے کہ تعویذ لٹکانا شرک ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جس تعویذ کا مضمون خلاف شرع نہ ہو وہ تعویذ گلے میں لٹکانا جائز ہے اور جس تعویذ کا مضمون خلاف شرع ہو وہ تعویذ گلے وغیرہ میں لٹکانا جائز نہیں اور احادیث میں اسی طرح کے تعویذوں کو شرک کہا گیا ہے۔

ابو داؤد شریف میں ہے:

عن عمرو بن شعيب، عن أبيه عن جده: أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – كان يعلمهم من الفزع كلمات: "أعوذ بكلمات الله التامة، من غضبه وشر عباده، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون” وكان عبد الله بن عمرو يعلمهن من عقل من بنيه، ومن لم يعقل كتبه فعلقه عليه. (رقم الحدیث: 3893)

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ خوف کے لیے یہ دعا سکھاتے تھے:

أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه و شر عباده و من همزات الشياطين و أن يحضرون.

اور حضرت عبدالله بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنے سمجھدار بچوں کو یہ دعا یاد کرواتے تھے (تاکہ وہ خود اس کو پڑھیں) اور جو ناسمجھ تھے اس کو لکھ کر ان کے گلے میں لٹکاتے تھے۔

اس روايت سے معلوم ہوا کہ جس تعویذ کا مضمون خلافِ شرع نہ ہو اس تعویذ کا گلے میں لٹکانا شرک نہیں، کیونکہ اگر ہر تعویذ کا گلے میں لٹکانا شرک ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  اپنے ناسمجھ بچوں کے گلے میں یہ تعویذ نہ لٹکاتے، کیونکہ شرکیہ عمل ناسمجھ بچوں کے ساتھ بھی ناجائز ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved