• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ادھار کی وجہ سے قیمت میں اضافہ

استفتاء

کاروبار میں ادھار لین دین عام میرے پاس اپنا کوئی روپیہ نہیں۔ مارکیٹ کے مختلف لوگوں سے ادھار مال خرید کر آگے بیچ کر پیسے واپس دے کر پھر مال لے آتا ہوں۔ دکاندار ادھار میں اکثر ریٹ زیادہ لگاتے ہیں جس کا مجھے علم ہے لیکن مجھے مجبوراً لینا پڑتا ہے کیونکہ میرے پاس اپنا مال نہیں ہے۔ اسی طرح جو لوگ مجھ سے دکان پر نقد مال لیتے ہیں ان کو میں اصل ریٹ پر اور کسی کو رعایتی نرخ پر مال دیتا ہوں اور جو ادھار لیتے ہیں ان کو اصل ریٹ پر مال دیتا ہوں جبکہ بازار میں مقابلے بازی کی وجہ سے رعایتی نرخ پر مال موجود ہوتا ہے۔ ایسا کرتے وقت گاہک کو بتایا نہیں جاتا کہ آپ کو رعایتی نرخ پر مال نہیں دیا گیا۔ کیا ادھار میں یہ صورت جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ادھار کی صورت میں قیمت میں اضافہ کر کے مال فروخت کرنا شرعاً درست ہے  بشرطیکہ سودے کے وقت دونوں کو معلوم ہو کہ سودا ادھار ہو رہا ہے اور دیگر کوئی خرابی نہ ہو۔

ہدایہ (3/72) میں ہے:

لأن للأجل شبهاً بالمبيع، ألا ترى أنه يزاد في الثمن لأجل الأجل والشبهة في هذا ملحقة بالحقيقة.

فتاویٰ شامی (5/142) میں ہے:

لأن الأجل في نفسه ليس بمال، فلا يقابله شيء حقيقةً إذا لم يشترط زيادة الثمن بمقابلته قصداً ويزاد في الثمن لأجله إذا ذكر الأجل بمقابلة الأجل قصداً.

بحوث فی قضایا فقہیہ المعاصرہ (ص: 7) میں ہے:

أما الأئمة الأربعة وجهمور الفقهاء والمحدثين، فقد أجاز والبيع المؤجل بأكثر من سعر النقد بشرط أن يبت العاقدان بأنه بيع مؤجل بأجل معلوم وبثمن متفق عليه عند العقد.

……………………………………………….. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved