• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بینک کی کمائی سے خرید ہوئی اشیاء کا حکم

استفتاء

محترم مفتی صاحب!

مسئلہ یہ ہے کہ والد صاحب حبیب بینک میں منیجر تھے اور بینک میں سودی کاروبار کی لکھت پڑت کرتے تھے۔ انہوں نے بینک کی تنخواہ اور بینک سے ملنے والی مراعات سے ایک گاڑی، تین پلاٹ اور گھریلو سامان خریدا تھا، ابھی کچھ عرصہ پہلے ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوا ہے انہوں نے وراثت میں مندرجہ بالا چیزیں چھوڑی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے لیے ان مذکورہ چیزوں کو وراثت میں تقسیم کر کے استعمال کرنا جائز ہے یا ن ہیں؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کیونکہ پہلے ہمیں دین کی زیادہ سمجھ نہیں تھی اب تبلیغ میں وقت لگا ہے تو احساس ہوا کہ ہمارے والد صاحب کا کاروبار تو درست نہ تھا اللہ آپ کو جزائے خیر نصیب فرمائے۔

نوٹ: ہماری موجودہ معاشی حالت درمیانی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کے حالات کے پیش نظر آپ کے لیے مذکورہ بالا اشیاء کو استعمال کرنے کی گنجائش ہے۔ تاہم یہ ضروری ہو گا کہ یکمشت یا آہستہ آہستہ کر کے ان اشیاء کی مالیت کو بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کریں۔

فتاویٰ شامی (4/244) میں ہے:

قوله: (اكتسب حراما الخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم …… وقال الكرخي: في الوجه الاول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الاخيرة يطيب. وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس ا ه. وفي الولوالجية وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، لكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام….. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved