• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

فلاں کو اتنے پیسے دو، میں آپ کو اتنے ریال واپس کر دوں گا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارے میں کہ میرے ماموں سعودیہ میں رہتے ہیں اور میرا ان کے ساتھ مالی معاملات یعنی پیسوں کا لین دین چلتا رہتا ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میرے بیٹے کو 28000 روپے دے دو اور وہ بیٹا لاہور میں رہتا ہے، میں تمہیں 1000 ریال چند دن کے بعد بھیج دوں گا، نہ ہی ماموں نے ریال کا ریٹ دیکھا اور نہ میں نے۔ ممکن ہے ریال اس وقت 28 روپے کا ہو یا پھر 28.40 روپے کا یا پھر 27.80 لیکن میں اور ماموں دونوں اس پر راضی تھے کہ میں ان کے بیٹے کو 28000 روپے دے دوں اور وہ مجھے 1000 ریال بھیج دیں گے۔ کیا ایسا کرنے میں کوئی شرعی قباحت تو نہیں؟

مذکورہ صورت میں تین سوال مطلوب ہیں:

1۔ ریال کا روپے کے بدلہ میں لینا دینا کیسا ہے؟

2۔ ریال کا ریٹ باہم رضامندی سے طے ہوا ہے، نہ کہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق۔ کیا یہ درست ہے؟

3۔ 28000 ابھی دیے ہیں اور ریال ہفتے دس دن بعد ملیں گے۔ کیا یوں ادھار کرنا درست ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ ریال کا روپے کے بدلے میں لینا دینا جائز ہے بشرطیکہ ریال یا روپے پر مجلس عقد میں قبضہ ہو جائے۔ موقع پر کسی کو بھی نہ ریال ملیں نہ روپے یہ درست نہیں۔

2۔ اسی طرح ریال کا ریٹ باہمی رضا مندی سے طے کرنا بھی درست ہے۔

3۔ جب دو ملکوں کی کرنسیاں آپس میں  مختلف ہوں تو ایک طرف سے ادھار جائز ہے۔ البتہ دونوں طرف سے ادھار جائز نہیں۔

نوٹ: مذکورہ صورت نہ تو حقیقتاً قرض لینے دینے کی ہے اور نہ ہی اصالۃً بیع یعنی خرید و فروخت کی ہے، بلکہ یہ صورت اصالۃً توکیل کی ہے اور ضمناً و اقتضاءً بیع یعنی خرید و فروخت کی ہے یعنی آپ کے ماموں نے اصالۃً تو آپ کو اس بات کا وکیل بنایا کہ آپ ان کے بیٹے کو 28000 روپے دیدیں جس کا بدل میں آپ کو 1000 ریال کی صورت میں چند دن بعد بھیج دوں گا۔ اور آپ نے چونکہ 28000 روپے اپنے ماموں کے بیٹے کو اسی بنیاد پر دیے ہیں کہ آپ کو ان کے بدلے میں 1000 ریال مل جائیں گے۔ اس لیے یہ ضمناً بیع ہے۔ البتہ چونکہ یہ بیع اقتضاءً ہے اس لیے اس پر بیع کے تمام احکامات لاگو نہیں ہوں گے جیسا کہ ”اعتق عبدك عني بألف“ میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved