- فتوی نمبر: 10-122
- تاریخ: 13 اگست 2017
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک آدمی اگر ایک بھینس کو نقد رقم کے عوض فروخت کرتا ہے تو ایک لاکھ رقم مانگتا ہے اور جب اسی بھینس کو ادھار کے ساتھ فروخت کرتا ہے تو ڈیڑھ لاکھ روپے مانگتا ہے۔
اسی طرح ایک دکاندار آٹے کا تھیلہ نقد رقم کے ساتھ سات سو روپے میں فروخت کرتا ہے اور آٹھ مہینے ادھار کے ساتھ آٹھ سو روپے میں فروخت کرتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ
1۔ یہ نقد اور ادھار کی زیادتی حلال ہے یا حرام؟
2۔ یہ زیادتی سود میں داخل ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔2۔ نقد میں کسی چیز کو کم قیمت پر فروخت کرنا اور ادھار میں زیادہ قیمت پر فروخت کرنا جائز ہے اور یہ زیادتی سود میں داخل نہیں۔ البتہ اس میں دو باتوں کا خیال رکھا جائے:
i۔ سودا کرتے وقت یہ طے ہو جائے کہ خریداری نقد میں ہے یا ادھار میں۔
ii۔ ادھار کی جو مدت طے ہو جائے اس مدت سے قیمت کی ادائیگی میں اگر تاخیر ہو جائے تو اس تاخیر کی وجہ سے مزید کوئی اضافی رقم نہ لی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved