• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

گھر کے مختلف حصے کی قیمتوں میں فرق، ایک وارث کے وصیت کی ایک صورت

استفتاء

محترم ہمارا ایک دینی گھرانہ ہے اور لوگ ہمارے گھر کو ایک مثالی تبلیغی گھرانہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے گھر میں اس وقت وراثت کی تقسیم کا معاملہ ہے، اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہماری اس معاملے میں معاونت فرمائیں اور ہمارے گھر تشریف لا کر موقع دیکھیں اور ہمارے درمیان تقسیم کے معاملہ کو فرمائیں، تاکہ کسی غیر آدمی کو ہمارے گھرانے پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے، ہم آپ کے فیصلے کو شرعی اور منصفانہ سمجھ کر قبول کریں گے، اور کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کریں گے، ہم سب آپ کے بے حد مشکور ہوں گے۔

1۔ تقسیم سے پہلے ایک مسئلہ اور ہے جس کا حل ہونا بھی ضروری ہے کہ والدہ کو اپنے والد صاحب کی طرف سے جو حصہ (رقم) ملی، ***نے والدہ کے پیچھے پڑ کے سارا حصہ (پیسے) خود لے لیا جبکہ اس وقت ایک بڑے بھائی ملازم تھے، دو بھائی مدرسہ میں پڑھتے تھے، ایک چھوٹے سکول میں پڑھتے تھے، دو بہنیں تھیں، انہیں محروم کیا۔

پھر والد کی طرف سے جو والدہ کو آٹھواں حصہ ملا، وہ بھی ساجد صاحب نے ایک چھوٹے بھائی جو سعودیہ میں ہیں اور والدہ تینوں نے ملی بھکت کر کے سب کو محروم کر کے صرف***کے نام کر دیا۔ جبکہ***بے اولاد بھی ہیں ، اپنے کاروبار والے بھی ہیں، ان کے دیگر دو بھائی مدرسے میں مدرس بلا معاوضہ اور ان کا کوئی ظاہری سہارا اور خرچے کا انتظام بھی نہیں۔

کیا ***نے اور والدہ نے ٹھیک کیا؟ اگر غلط ہے تو اس کی اب بھی تلافی کا موقع ہے، اس کی تلافی کی جائے۔ (***)

2۔ ورثاء میں اہلیہ ***، پانچ بیٹے (***، ***، ***،***اور ***) اور دو بیٹیاں ہیں۔

نوٹ:***نے اپنے دو بھائیوں ***اور*** کا حصہ اور دو بہنوں کا حصہ خرید لیا ہے۔

3۔ سڑک کی جانب حصہ اور گلی کی طرف حصہ کی قیمتوں میں فرق ہے، اس کی تقسیم کی کیا صورت ہو گی؟ محمد ارشد سڑک کی طرف حصہ رکھنا چاہ رہے ہیں، اور باقی دو بھائی اور والدہ کا حصہ گلی کی طرف۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ الف: والدہ کو اپنے والد کی طرف سے جو رقم ملی تھی اور انہوں نے اپنے ایک بیٹے کو دی، تو وہ رقم اس بیٹے کی ہو گئی۔

ب: منسلکہ تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ والدہ کا مکان میں 8/1 حصہ ساجد صاحب کو ہبہ نہیں کیا، بلکہ ان کے لیے وصیت کی گئی ہے، چونکہ وارث کے لیے وصیت درست نہیں، اس لیے اگر والدہ کا انتقال ہو تا ہے، تو ان کا حصہ تمام ورثاء میں تقسیم ہو گا۔

نوٹ: منسلکہ تحریر کے الفاظ یہ ہیں: "میری ملکیت کا وارث میرا بیٹا *** ۔۔۔ کو وصیت کرتی ہوں کہ وہ میری زندگی کےبعد مذکورہ بالا حصہ / مکان کا اپنے تصرف میں لاویں، فروخت کریں، ۔۔۔۔۔ یہ کہ میری زندگی کے بعد اگر مکان مذکور کو میرے وارث فروخت کرتا ہے تو اس وقت کی موجودہ ویلیو کے مطابق میرے بیٹے*** کو 8/1 حصہ میرا جو بنتا ہے وہ بھی ادا کیا جائے گا اور بعد

میں مکان مذکور کے شرعی و قانونی حصہ ہوں گا”۔

      8×12=96                                                                                                   

زوجہ***(بیٹا)*** (بیٹا)         ***(بیٹا)         ***(بیٹا)***(بیٹا)          2 بیٹیاں

8/1                                                        باقی

1×12                                                     7×12

12                                                         84

12         14               14               14               14               14               7+7

مذکورہ صورت میں مکان کے 96 حصے کر کے ان میں سے 12 حصے زوجہ کو، اور 14 حصے طارق کو، 56 حصے *** کو، اور 14 حصے***کو ملیں گے۔

چونکہ ***نے اپنے دو بھائیوں اور دو بہنوں کا حصہ خریدا ہے، اس لیے ان دو بھائیوں اور دو بہنوں کا حصہ*** کو ملے گا۔ لہذا 14 حصے ان کے اپنے اور 28 حصے دو بھائیوں اور 14 حصے دو بہنوں کے، کل 56 حصے ہو گئے۔

3۔ مکان کی تقسیم قیمت کے اعتبار سے ہو گی، یعنی کل مکان کی قیمت لگائیں، پھر جن وارث کے حصہ میں زیادہ قیمت والا حصہ آئے وہ دوسرے ورثاء جن کے حصہ میں کم قیمت والا حصہ آیا ان کو دیں۔ مثلاً اگر کل مکان کی قیمت 1000 روپے ہو تو ان میں سے 125 روپے والدہ کے، 146- 146 روپے *** اور***کے، اور 583 روپے *** کے ہوں گے، اب اگر *** سڑک والا حصہ لیتے ہیں تو یاتو وہ 583 روپے کے بقدر مکان میں سے حصہ لیں اور باقی حصہ دوسرے ورثائ کو دیں۔ اور اگر 583 روپے سے زائد مکان میں سے حصہ لے رہا ہے تو وہ دوسرے ورثاء کو اس کی قیمت دے۔

96                                      1000 روپے

زوجہ        *******

12 حصے     14 حصے           14 حصے           56 حصے

125       146             146             583             فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

 

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved