• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تعمیر کے خرچ میں وراثت

استفتاء

ایک مکان ہے جو کہ والد صاحب کی زندگی میں پلاٹ خرید کر تعمیر کیا گیا۔ پلاٹ جو خریدا گیا دو بھائیوں کے پیسوں سے خریدا گیا جو کہ الگ دکان میں اکٹھے کاروبار کرتے تھے، جبکہ والد صاحب کا الگ کاروبار تھا۔ تعمیرات میں دو بھائیوں کا تین گناہ تو والد کا ایک گناہ خرچہ ہوا۔ والد صاحب کا مکان میں شفٹ ہونے کے بعد ایک ماہ میں انتقال ہو گیا۔ والد صاحب نے اپنی زندگی میں کوئی وراثت نامہ یا کوئی تحریر یا بہن بھائیوں کے سامنے کوئی وصیت نہیں کی۔

انتقال کے وقت ہم گیارہ بہن بھائی تھے۔ جبکہ ایک بھائی کا چار سال قبل انتقال ہو گیا ہے۔ ان کی بیوی، تین بیٹیاں ہیں جو کہ ہمارے پاس ہی ہیں۔ مگر اب ایک بہن جو کہ بہنوں میں تیسرے نمبر پر ہے وہ یہ کہتی ہے  کہ والد صاحب نے کہا تھا کہ "تعمیرات مکمل ہونے کے بعد یہ مکان سب بہن بھائیوں کے نام کروں گا”۔ مگر یہ ذکر کسی اور بہن بھائیوں سے نہیں کیا گیا، اس بات کو پچپن سال کا عرصہ گذر چکا ہے۔

کیا ان کی اس بات سے تمام بہن بھائی جائیداد کے وارث بن جائیں گے یا نہیں؟ موجودہ پانچ بھائی، پانچ بہنیں ہیں۔

بہن کا بیان

السلام علیکم کے بعد عرض ہے میں خدا کو حاضر ناظر کر کے سبہی بیان دے رہی ہوں۔ میرے والد محترم نے جو مجھے کہا تھا وہی الفاظ میں بیان کر رہی ہوں، انہوں نے مجھے یہ کہا تھا کہ "یہ گھر میں نے قرضے کی وجہ سے دو بڑے بیٹوں کے نام کیا ہے۔ جب قرضہ اتر جائے گا تو پھر میں سب کے نام کر دوں گا۔ اور دکان جو پرانی انار کلی کی ہے وہ دو کے نام کر دوں گا(آصف اور زاہد) جو اس دکان پر کام کرتے ہیں۔”

اس وقت میں زیادہ گھر پر موجود ہوتی تھی، باقی چھ بھائی بھی اس گھر میں رہتے تھے باقی بہنیں اپنے اپنے گھروں میں ہوتی تھیں۔ والد صاحب چونکہ بیمار رہتے تھے اور جب گھر میں شفٹ ہوئے ٹھیک 19 دن بعد انتقال ہو گیا۔اور میں عرصہ پچیس سال بعد یہ بات کر رہی ہوں۔ وجہ دیر سے بتانے کی یہ ہے کہ سب مل کر رہ رہے تھے، اب مکان کا مسئلہ اٹھا ہے تو میں نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ یہ بات سب کے علم میں لے آؤں۔ یہ گھر بینک کے قرضے سے تعمیر ہوا اور سب نے مل کر اس کا قرضہ ادا کیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں پلاٹ ان دو بھائیوں کی ملکیت ہے جن کے پیسوں سے وہ خریدا گیا تھا اور تعمیر میں بھی جتنا خرچہ بھائیوں نے کیا ہے اتنے حصے کے وہ مالک ہیں، اس میں وراثت نہیں چلے گی، البتہ جو حصہ والد کے پیسوں کا ہے اس میں میراث جاری ہو گی اور وہ ان تمام ورثاء میں جو والد کے انتقال کے وقت موجود تھے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہو گا۔ باقی رہا یک بہن کا یہ کہا کہ "والد صاحب اسے سب کو دینا چاہتے تھے” اسے اگر صحیح تسلیم بھی کیا جائے تو یہ صرف ارادہ اور خواہش کا اظہار ہے عملاً دیا نہیں، اس لیے اس کا اعتبار نہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved