• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی، بیٹا اور دو بیٹیاں

استفتاء

میرے والد*** مرحوم 15 دسمبر 2013ء کو وفات پا گئے۔ انہوں نے کوئی وصیت نہیں چھوڑی، ترکے میں ایک گھر (ایک کروڑ) جس میں اپنی والدہ کے ہمراہ رہتا  ہوں، ایک گاڑی تقریباً 14 لاکھ، ایک پلاٹ 10 لاکھ اور بنک میں اکاؤنٹ جن میں موجود رقم کی تفصیل  ابھی معلوم نہیں (اندازتاً ایک کروڑ)، نیز پنشن کی رقم بھی ہے جس کی تفصیل ابھی معلوم نہیں۔

مندرجہ ذیل ورثہ ہیں ۱۔ بیوی، ۲۔ بیٹا، ۳۔  بیٹی (2000ء میں ایک گھر بیٹی کے حصے کے طور پر دیا جس کی مالیت اس وقت 30 لاکھ اور موجودہ 60 لاکھ ہے)، اس کا کوئی مزید مطالبہ نہیں۔ ۴۔ بیٹی (چھوٹی بیٹی کے حصے 30 لاکھ کی ادائیگی کا وعدہ کیا جس میں سے 8 لاکھ ادا کر دیے)۔ اس کا بقیہ رقم 30 لاکھ کا مطالبہ ہے۔

مندرجہ بالا کے علاوہ میری سوتیلی دادی، سوتیلا چچا، سوتیلی پھوپھی حیات ہیں جو مرحوم کی سوتیلی والدہ اور سوتیلے بہن بھائی ہیں۔

آپ سے درخواست ہے کہ شرعی اعتبار سے ترکہ کی تقسیم سے آگاہ کر دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں مرحوم کے کل ترکے کو 32 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے 4 حصے ان کی بیوہ کو اور 14 حصے بیٹے کو جبکہ 7-7 حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے:

4×8= 32                                    

بیوی         بیٹا       بیٹی      بیٹی

8/1                 عصبہ

1×4                7×4

4                     28

4           14     7       7

2۔ جو بہن اپنا حصہ نہیں لینا چاہتی وہ اپنا حصہ بھائی کو دے سکتی ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved