• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیٹیوں کو جائیداد سے محروم کرنا

استفتاء

ہم چار بہنیں ہیں اور چار بھائی ہیں، ہم سب شادی شدہ ہیں، ہمارے شادیوں سے پہلے ہمارے والد نے کچھ بے آباد سرکاری اراضی پر قبضہ کیا اور اس کے کچھ حصہ پر گھر بنایا اور کچھ زرعی اراضی بنا لی۔ اس میں سے کچھ حصہ کے گورنمنٹ نے مالکانہ حقوق بھی دے دیے ہیں۔ اب ہمارے والد صاحب نے اس کل زمین کے پانچ برابر حصے کیے ہیں، چاروں بھائیوں کو ایک ایک حصہ دیا ہے اور پانچواں حصہ خود رکھ لیا ہے۔ آپ رہنمائی  فرمائیں کہ شریعت کی رو سے ہم بہنیں اس زمین میں سے حصہ لینے کی حقدار ہیں یا نہیں؟

نوٹ: مذکورہ زمین تقریباً تیس سال سے قبضے میں ہے۔ حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ ایک آدمی کے نام دس مرلے سے زیادہ نہیں ہو سکتی، اس لیے جتنے بالغ افراد کے نام کروا سکتے تھے اتنی کروا لی، باقی جب مزید لڑکے وغیرہ بڑے ہوں گے تو ان کے نام کروائی جائے گی۔ گورنمنٹ کی طرف سے کسی قسم کا کوئی مطالبہ نہیں کہ زمین خالی کریں یا نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

زندگی میں اپنی اولاد کو جو کچھ دیا جائے اس کی حقیقت ہبہ اور گفٹ کی ہے جس میں سے ورثاء کو برابر حصہ دینا چاہیے، کسی معقول وجہ کے بغیر کمی بیشی کرنا یا کسی وارث کو محروم کرنا درست نہیں۔

اگر حکومتی قانون ہو کہ زمین صرف لڑکوں کو منتقل ہو سکتی ہے لڑکیوں کو نہیں تب تو اس کے مطابق عمل کریں اور لڑکیوں کو کوئی دوسرا مال دے کر مثلاً روپے یا زیور دے کر راضی کریں۔ اور اگر ایسا قانون نہ ہو تو اس صورت میں لڑکیوں کو ہبہ اور میراث میں شریک کرنا ضروری ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved