- فتوی نمبر: 6-355
- تاریخ: 03 مئی 2014
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
میں نے اور میرے والد صاحب نے ایک دکان پر تقریباً 29 سال تک مل کر کاروبار کیا ہے، اب میرے والد صاحب فوت ہو گئے ہیں اور میری 3 بہنیں ہیں، لہذا اس مال کی تقسیم مقصود ہے، آپ سے گذارش ہے کہ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
تفصیل کچھ یوں ہے کہ میرے والد صاحب نے 1980ء میں ایک رفاہی ادارہ کی جگہ پر قبضہ کر کے ایک دکان تعمیر کی جہاں پر انہوں نے مشینری کا کاروبار شروع کیا اور عدالت میں اس دکان کا مقدمہ برائے بے دخلی آج بھی چل رہا ہے، 1985ء میں جب میری عمر 11 سال تھی، تو میرے والد صاحب نے مجھے سکول جانا بند کر دیا، اور یہ کہہ کر اپنے ساتھ کاروبار میں شامل کیا کہ وہ اکیلے ہیں اور وہ اب میرے ساتھ مل کر کاروبار کریں گے، اس سے پہلے میرے والد صاحب اپنے 3 بھائیوں سے مل کر اس دکان پر کاروبار کرتےرہے، 1985ء میں جب وہ اپنے بھائیوں سے علیحدہ ہوئے تو ان کے حصہ میں 10 ہزار روپے آئے جس سے انہوں نے میرے ساتھ مل کر کاروبار شروع کیا۔
2001ء تک میں نے والد صاحب کے ساتھ مل کر کاروبار کیا اور 15 سال کے عرصہ میں انہوں نے آمدن میں سے 3 لاکھ روپے جمع کر کے بینک میں رکھوا دیے۔ 2001ء میں میری شادی کے بعد میرے والد صاحب نے مجھے اس کاروبار کا مکمل اختیار دے دیا اور 2014ء تک میں نے کاروبار کا سرمایہ اپنی محنت اور ایمانداری سے 10 گنا کر دیا ان 14 سالوں کے دوران بڑھتا ہوا کاروبار دیکھ کر والد صاحب کے حکم پر 2007ء اور 2012ء کے درمیان میں نے ان کو 7 لاکھ روپے کاروبار سے منافع کی رقم دی جس سے انہوں نے ڈیڑھ لاکھ روپے کی پراپرٹی اور 50 ہزار روپے کی موٹر سائیکل خریدی اور بقایا 5 لاکھ روپے بینک میں جمع کروا دیے جہاں سابقہ 3 لاکھ جمع تھے۔
جناب مفتی صاحب شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ
1۔ 15 سال تک جو کاروبار شراکت میں کیا اور اس کے نتیجہ میں جو رقم 3 لاکھ جمع ہوئی اس کی تقسیم کیسے کرنی چاہیے؟
2۔ جو اضافہ سرمایہ میں میں نے اکیلے محنت کر کے 14 سال میں کمایا اور 7 لاکھ بھی اسی کمائی میں سے نکالے، کیا یہ ترکے میں شمار ہوتے ہیں؟
3۔ میرے والد صاحب مجھے ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ تم میرے اکلوتے بیٹے ہو اس لیے تمام رقم اور کاروبار تمہارا ہے لیکن انہوں نے کبھی تحریری وصیت نہیں کی۔ آپ رہنمائی فرمائیں کہ اس قبضہ کی جگہ سے جو سرمایہ کمایا گیا ہے اس کی تقسیم کیسے کریں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ بنک میں جمع 3 لاکھ روپے والد کا سرمایہ ہے اور کل کا کل والد کی میراث ہے۔ یہی حکم خریدی ہوئی پراپرٹی اور بنک میں جمع کروائی ہوئی 5 لاکھ کی رقم کا ہے۔
2۔ 2001ء کے بعد جو کام کیا اور نفع کمایا تو اس وقت سے لے کر اب تک مارکیٹ کے اندازے کے مطابق اس کام کی جواجرت بنتی ہے، سائل اس کا حقدار ہے، البتہ اس میں سے وہ مقدار منہا کی جائے گی جو سائل لیتا رہا ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved