• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں ترکہ کی تقسیم

استفتاء

میری جائیداد 2 کروڑ ہے تقریباً نقدی اور زیور کی صورت میں۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی اولاد کو اپنی زندگی میں ہی ہر ایک کو ان کا حصہ دے دوں تاکہ اللہ کےسامنے سرخ رُو ہو سکوں، اس لیے ہر ایک کے حصہ کی تعیین فرما دیں۔ میری اولاد میں 7 بیٹے اور ایک بیٹی ہے اور ایک زوجہ ہے اور ایک میں خود موجود ہوں۔ تفصیلاً ہر ایک کے حصہ کی تعیین فرما دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

میراث کا تعلق آدمی کی وفات سے ہوتا ہے۔ اپنی زندگی میں اولاد کو جو دیں وہ ہبہ و ہدیہ ہوتا ہے، چنانچہ مذکورہ صورت میں  آپ اپنے لیے کچھ حصہ اپنے پاس رکھ کر اس کے بعد کل مال کو افراد کے اعتبار سے برابر حصوں پر تقسیم کر کے ہر ایک کو برابر حصہ دے دیں، نیز دو ایک کی نسبت سے بھی دے سکتے ہیں، اور اگر کسی معقول وجہ سے کمی بیشی کرنا چاہیں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

أما كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف رحمه الله العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية و لا يفضل الذكر علی الانثی. و ذكر محمد رحمه الله في المؤطأ: ينبغي للرجل أن يسوي بينهم و لا يفضل بيعضهم علی بعض و ظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف رحمه الله و هو الصحيح لما روي:أن بشيرا أبا النعمان أتی بالنعمان إلی رسول الله ﷺ فقال إني نحلت ابني هذا غلاماً كان لي … الخ و هذا إشارة إلی العدل بين الأولاد في النحلة و هو التسوية بينهم و لأن في التسوية تأليف القلوب و التفضيل يورث الوحشة فكانت التسوية أولی. (بدائع الصنائع: 5/ 182)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved