• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیٹیوں کو 50-50 ہزار اور پلاٹ بیٹے کو دینے کے بارے میں والد کی خواہش و وصیت

استفتاء

ایک شخص *** صاحب کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، چاروں بیٹوں کی شادیاں ہو چکی ہیں، *** صاحب کا کوئی  کاروبار نہیں ہے اور نہ ہی کفالت کا کوئی ذریعہ ہے، ایک بیٹا جس کی عمر اس وقت تقریباً 28 سال ہے جو کہ اپنے باپ کے ساتھ 10 سال کی عمر سے محنت مزدوری کر رہا ہے، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ *** صاحب بیماری کی وجہ سے بالکل کام کاج نہ کر سکتے تھے، اب تقریباً 15 یا 16 سال سے ان کا بیٹا ملازمت کر کے گھر کی کفالت کر رہا ہے، اور اس پندرہ سولہ سال کی جدو جہد سے *** صاحب نے ایک عدد پلاٹ لیہ میں خریدا ہے، اور ایک عدد سونے کا سیٹ جو کہ ان کی اہلیہ کا ہے، موجود تھا، اہلیہ کے انتقال کے بعد انہوں نے 2012ء میں سیل کر دیا تھا اپنی کسی ضرورت کے لیے، اور انہوں نے اس رقم سے کیا کیا، نہیں معلوم، اس سیٹ کا وزن تقریباً 2 تولہ تھا۔

اب *** صاحب کا انتقال ہو گیا ہے 25 مئی 2014 کو ، انتقال کے وقت کچھ رقم ان کی جیب سے نکلی بھی ہے جو کہ انہوں نے اپنے کفن دفن کے لیے رکھی تھی، اپنی بہو اور بیٹے سے کہا تھا کہ کسی سے بھی کچھ مت لینا میرا سب کچھ میرے ان پیسوں میں سے کرنا جو کہ ان کے کہنے کے مطابق کیا گیا ہے، اس کا حساب موجود ہے وقت آنے پر دیکھا دیا جائے گا۔ *** صاحب نے ایک عدد اشٹام پیپر پر کچھ وصیت کے طور پر کچھ لکھوایا تھا جو کہ ان کی بیٹی اور بہو اور ایک شخص الیاس کو معلوم ہے اور موجود ہے، فوٹو کاپی منسلک کی جا رہی ہے۔ وصیت اور شریعت کی روشنی میں مفتی صاحب تقسیم کے عمل کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔

یاد رہے کہ جس رقم کا ذکر بیٹیوں کو دینے کے حوالے سے کیا گیا ہے وہ ابھی تک ادا نہیں کی گئی ہے (50- 50 ہزار) جو کہ پلاٹ کی فروخت سے یا پلاٹ فروخت نہ کیا گیا تو وہ بیٹا اپنے پاس سے ادا کرے گا۔ اشٹام کی صورت میں جو وصیت ہے اس کا علم تمام وارثان کو ہے، اشٹام کی صورت میں  وصیت پر جو دستخط موجود ہیں ایک بیٹے اور ایک بیٹی کے ہیں اور دوسرے وارثوں کے نہ ہونے کی وجہ سے شہر سے باہر ہونے کی ہے، معلوم سب کو ہے، زیورات اس ایک سیٹ کے علاوہ نہ ہے جو کہ 2012ء میں وہ خود سیل کر چکے ہیں۔

نوٹ: پلاٹ ولد صاحب ہی کا تھا اور والد صاحب ہی اس کے مال تھے، کل مال اخیر وقت تک والد کے پاس رہا کوئی تقسیم نہیں ہوئی اور نہ کسی کو کچھ دیا۔

وصیت کے مذکورہ بالا الفاظ: اس بات کی وضاحت کر دی جاتی ہے کہ زیورات و گھریلو سامان کے علاوہ من مقر کا ملکیتی پلاٹ جو کہ لیہ میں واقع ہے کے حصہ میں سے من مقر نے اپنی تینوں بیٹیوں کو مبلغ 50-50 ہزار روپے بحصہ برابر نقد ادا کر دیے ہیں اور اب پلاٹ متذکرہ بالا من مقر کے بیٹے *** کی واحد ملکیت ہو گا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ترکہ کی تقسیم شرعی طریقہ پر ہو گی چونکہ والد نے نہ تو اپنی زندگی میں کوئی تقسیم کی اور نہ ہی کسی کو کچھ دیا اور اخیر وقت تک سارا مال والد کے قبضہ ہی میں رہا اور نہ بیٹے نے پلاٹ بیچا، البتہ اس کو والد کی خواہش اور وصیت کہا جا سکتا ہے، اس لیے ترکہ کی تقسیم تو شریعت کے مطابق کی جائے۔ تقسیم کے بعد وارث اگر والد کی خواہش کے مطابق کچھ لے دے کر لیں تو درست ہو گا۔

ترکہ کی شرعی تقسیم کی صورت یہ ہو گی کہ کل ترکہ کو پانچ حصوں میں تقسیم کر کے ایک ایک حصہ ہر ہر بیٹی کو اور دو حصے بیٹے کو دیے جائیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہو گی:

5                             

بیٹا                    3 بیٹیاں

2                     1+1+1                           فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved