• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں بچیوں میں جائیداد تقسیم کر کے بہن بھائیوں کو محروم کرنا

استفتاء

میں *** میں مقیم ہوں، میری چار بیٹیاں اور چھ بہن بھائی ہیں، میری تمام بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور تمام بہن بھائی امریکہ اور برطانیہ میں مقیم ہیں، والدین کا انتقال ہوئے عرصہ گذر گیا ہے، ہم تمام بہن بھائی مالی اعتبار سے خوشحال ہیں، میری عمر 60 سال ہو چکی ہے، میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی جائیداد کا 80% حصہ اپنی زندگی ہی میں بچیوں میں تقسیم کروں اور ان کو مالک بنا کر ان کے حوالے کر دوں، % 20 جائیداد میرے اور بیوی کی ملکیت میں رہے گی، الحمد للہ میری بچیاں بھی خوشحال گھرانوں میں بیاہی گئی ہیں۔

تقسیم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد میرے بہن بھائی میری بچیوں کی جائیداد میں شراکت دار نہ بنیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ مشترکہ جائیداد کو سنبھالنا اور بیچنا شرعاً و قانوناً دشوار کام ہے، خاص کر جب کہ میرے سارے بہن بھائی *** میں ہیں، ان سے ہر ہر جائیداد کی فروخت و تقسیم سے پہلے اجازت و رضا مندی لینا ایک وقت اور محنت طلب کام ہے۔ ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ آپ کی کل جائیداد میں آپ کے بہن بھائیوں کا بھی حصہ ہے، اس لیے آپ کا اپنی %80 جائیداد کو صرف اپنی بچیوں میں تقسیم کرنا مناسب نہیں اور اگر تقسیم کرنا ہی چاہتے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ تمام بہن بھائیوں کو بھی ان کے حصے کے مطابق دیں۔ میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ

1۔ کیا میرا اپنی %80 جائیداد کو صرف اپنی بچیوں میں تقسیم کرنا جائز ہے؟

2۔ میرے لیے افضل اور بہتر کیا ہے کہ اپنی جائیداد کو صرف بچیوں میں تقسیم کردوں تاکہ ان کو بعد میں تقسیم میں مشقت نہ ہو یا جائیداد کو ایسے ہی بغیر تقسیم کے چھوڑ دوں کہ میرے مرنے کے بعد ورثاء خود ہی تقسیم کا معاملہ سنبھال لیں گے۔

3۔ %80 تقسیم ہونے والی جائیداد میں سے بہن بھائیوں کو اگرچہ کچھ بھی نہ دیا جائے تو اس میں کوئی کراہت یا نا پسندیدگی والا پہلو ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں آپ کا اپنی جائیداد میں سے %80 جائیداد کو صرف اپنی بچیوں میں تقسیم کرنا جائز ہے۔

2۔ دونوں طرح کر سکتے ہیں۔

3۔ %80 تقسیم ہونے والی جائیداد میں سے ایک بہن بھائیوں کو کچھ نہ دیا جائے خصوصاً جبکہ وہ خوشحال بھی ہیں تو اس میں کوئی کراہت نہیں۔

كل يتصرف في ملكه كيف شاء. (شرح المجلة، مادة: 1192)

يجب أن يعلم بأن هبة المريض هبة عقداً و ليست بوصية و اعتبارها من الثلث ما كانت وصية و لكن لأن حق الورثة يتعلق بمال المريض (فقد ثبت بالمفهوم أن حق الورثة لا يتعلق بمال المورث قبل مرضه. الناقل) و قد تبرع بالهبة فيلزم تبرعه بقدر ما جعل الشرع له و هو الثلث. (المحيط البرهاني: 9/ 205)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved