- فتوی نمبر: 8-235
- تاریخ: 09 مارچ 2016
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
1۔ رائل پارک دکان *** نے خریدی، رجسٹری *** کے نام ہے، اس دکان میں تقریباً 20 سال سے کام کر رہا ہوں۔
2۔ گھر جس میں والدین سمیت 4 بھائی رہ رہے ہیں، وراثتی ہے، عمارت پر پیسے والد صاحب ،*** ، *** احمد اور *** نے لگائے، کسی نے زیادہ کسی نے کم، یہ گھر والد صاحب نے اپنی زندگی میں نعیم، *** اور *** کے نام پر کر دیا۔
3۔ والد صاحب نے 6 لاکھ *** کو اپنی بڑی بچی کی شادی کے لیے دیے۔
4۔ 5 بہنوں کو بھی بچوں کی شادی کے لیے ایک ایک لاکھ دیا۔
5۔ سی این جی ڈھائی مرلہ زمین *** کے نام ہے۔ اور 5 مرلہ *** کے نام ہے۔ والد صاحب کی زمین نہیں، وصیت میں بھی رقم کا ذکر ہے، زمین کا ذکر نہیں۔ سی این جی پر *** 11 سال سے کاروبار کر رہا ہے۔
وضاحت مطلوب ہے:
نمبر 2 سے متعلق : نام پر کر دینے سے کیا مراد ہے؟ نیز اس کا کوئی تحریری ثبوت ہے؟
نمبر 3 سے متعلق: یہ دینا بطور قرض کے تھا، یا بطور ہدیہ کے؟
نمبر 4 سے متعلق: اس میں بھی نمبر 3 والی وضاحت مطلوب ہے۔
نمبر 5 سے متعلق: کیا ان دونوں بھائیوں نے یہ زمین اپنی رقم سے خریدی ہے؟
جس پراپرٹی کا کرایہ والد صاحب لیتے تھے
1۔ ***: 8 دکانیں
2۔ ***: ایک گھر
3۔ ***: ایک گھر
والد صاحب نے جو وصیت کی، اس پر ایک بھائی اور دو بہنوں کو اعتراض ہے۔ والد صاحب نے بہنوں اور بھائیوں کو اپنی زندگی میں بتا دیا تھا کہ بہنوں کو ایک ایک دکان دینی ہے۔ اس پر بہنیں خوش تھی، لیکن اب بھائی اور دو بہنوں کو اعتراض ہے۔ اس میں ہماری رہنمائی کریں کہ جو جائیداد ہم نے خریدی اور جو جائیداد ہمیں والد صاحب نے اپنی زندگی میں دی، اس میں بہنوں کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ یا پھر جس جائیداد کا والد صاحب کرایہ لیتے تھے، اس میں سے حصہ دے یا جو والد صاحب وصیت کر گئے وہ دیں؟
نوٹ: دکانیں چھت کے بغیر تھی، بہنوں نے ہم سے چھتیں مانگیں، جو ہم نے اپنی خوشی سے دی دیں۔ ایک سال بعد پھر ہم سے حصہ مانگنا شروع کر دیا۔
وضاحت مطلوب ہے: تمام بہن بھائی آپ کے اس بیان سے متفق ہیں یا نہیں؟ اگر متفق ہیں تو ان تمام کے دستخط اس تحریر پر ضروری ہیں، اور اگر متفق نہیں تو آپ خود بھی اور دیگر بہن بھائی بھی اپنا اپنا حلفیہ بیان لکھ کر دیں۔
مناسخہ
ہمارے داد ا کے 2 بیٹے اور 2 بیٹیاں تھیں۔ دادا نے اپنی تمام اولاد کو ایک ایک مکان خرید کر باقاعدہ رجسٹری کروا کر دیا تھا۔ ہماری دادی پہلے فوت ہو چکی تھی۔ ان کے ایک بیٹے کا یعنی ہمارے والد صاحب کا انتقال 1998ء میں ہو گیا، ان کے انتقال کے وقت ان کے ورثاء میں والد ایک بھائی اور 2 بہنیں اور 3 بیٹیاں اور 4 بیٹے حیات تھے، ان کی بیوی یعنی ہماری والدہ کا انتقال بھی پہلے ہو چکا ہے۔ پھر 2004ء میں ہمارے دادا کا انتقال ہوا، اس وقت ان کے ورثاء میں ایک بیٹا اور 2 بیٹاں حیات تھیں، فی الحال ایک بیٹا اور ایک بیٹی حیات ہے۔ ایک بیٹی کا انتقال 2014ء میں ہوا، ان کے ورثاء میں خاوند ایک بیٹی اور 6 بیٹے ہیں۔ لہذا اب پوچھنا یہ ہے کہ میرے والد کے مکان میں کس کس کا حصہ ہے اور کتناکتنا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اس مکان یا اس کی قیمت کے 13728 حصے کر کے ان میں سے 2080- 2080 حصے مرحوم کے ہر بیٹے کو، اور 1040- 1040 حصے مرحوم کی ہر بیٹی کو، اور 1144 حصے مرحوم کے زندہ بھائی کو، اور 572 حصے زندہ بہن کو، اور 143 حصے فوت شدہ بہن کے خاوند کو، اور 66- 66 حصے مرحومہ کے ہر بیٹے کو، اور 33 حصے مرحومہ کی بیٹی کو ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے:
والد 6/1 1×11 11 |
6×11= 66×4= 264×52= 13728 بیٹا (مورث اعلیٰ)
4 بیٹے 3 بیٹیاں
عصبہ
5×11
55
10+10+10+10×4 5+5+5×4
40+40+40+40×52 20+20+20×52
2080+2080+2080+2080 1040+1040+1040
بیٹی 1×11 11 |
4×11= 44×52= 2288 والد 11×4= 44×52= 2288
بیٹا بیٹی
2×11 1×11
22×52 11×52
1122 572
4×13= 52×11= 572 بیٹی 11×52= 572
خاوند 6 بیٹے بیٹی
4/1 عصبہ
1×13 3×13
13 39
13×11 6+6+6+6+6+6×11 3×11
143 66+66+66+66+66+66 33
الاحیاء مرحوم بیٹے کے ورثاء (یعنی سائل کے والد)
4 بیٹے 3 بیٹیاں
2080 فی کس 1040 فی کس
الاحیاء مرحوم والد (دادا )کے ورثاء
بیٹا بیٹی
1144 572
الاحیاء مرحومہ بیٹی کے ورثاء (یعنی سائل کی پھوپھی)
خاوند 6 بیٹے بیٹی
143 66 فی کس 33 فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved