• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وراثت سے دستبرداری

استفتاء

محترم مفتي صاحب !

ہمارے والد صاحب  ***صاحب کا انتقال ہو گیا ان کی اہلیہ حیات ہیں اور دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔

وراثت میں ایک مکان  17 مرلے کا چھوڑا پھر ایک بھائی نے ایک بہن کو اس کی رضامندی سے ایک پلاٹ لے کر اس کے حصہ کے طور پردے دیا اور دالدہ نے اپنا حصہ اسی بھائی کو دے دیا دونوں باتوں کے کاغذات ساتھ موجود ہیں

1 ۔ اب وراثت کی تقسیم مطلوب ہے ؟

کرایہ کی تقسیم

2 ۔ اس مکان میں کچھ دکانیں ہیں جنکا کرایہ ایک بھائی کئی سال تک کھاتا رہا کیا اس کا وراثت میں حساب ہو گا ؟

تعمیر کا خرچ

3 ۔ ایک بھائی نے مکا ن میں کچھ تعمیر بھی کروائی  ان پیسوں کا کیا ہو گا ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں والدہ اور بہن کا جو حصہ 17 مرلے کے مکان میں تھا وہ دستبرداری سے ختم نہیں ہوا۔ کیونکہ یہ ’’اعیان‘‘ سے دستبرداری ہے اور ’’اعیان‘‘ سے دستبرداری باطل ہے۔ لہذا اس مکان کو 8 حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ مرحوم کی بیوی کو اور ایک ، ایک حصہ مرحوم کی ہر بیٹی کو اور دو، دو حصے مرحوم کے ہر بیٹے کو ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے:

8                                                 

بیوی         بیٹا       بیٹا       بیٹی      بیٹی      بیٹی

8/1                           عصبہ

1           2       2       1       1       1

2۔ اس کرائے کا بھی وراثت میں حساب ہوگا۔

3۔ اس بھائی کا تعمیر میں جو خرچہ ہوا وہ اسے دے کر باقی کو وراثت میں تقسیم کریں گے۔

نوٹ: سوال میں ہے کہ ’’ایک بھائی نے ایک بہن کو اس کی رضا مندی سے ایک پلاٹ لے کر اس کے حصہ کے طور پر دیدیا‘‘ جبکہ دستبرداری نامہ میں اس پلاٹ کا کچھ تذکرہ نہیں ہے۔ ہمارا مذکورہ جواب دستبرداری نہ کی بنیاد پر ہے۔ لیکن اگر واقعتاً بہن پلاٹ لے کر اپنے حصے سے دستبردار ہوئی ہیں، مگر اس کا تذکرہ دستبرداری نامہ میں نہ آسکا تو اب اس بہن کے لیے 17 مرلے مکان میں سے حصہ لینا جائز نہیں، اگر وہ لیں گی تو آخرت میں دینا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved