• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

والد ہ کا اپنی مرضی سے اپنا حصہ بیٹے کو دینا، بھائی کے ذمہ ہمشیرہ کا اور ہمشیرہ کے ذمے بھائی کا حصہ

استفتاء

میرے بھائی کا 1983-12-21 کو انتقال ہوا۔ جن کے ورثاء میں ایک بھائی، ایک بہن اور والدہ تھیں۔ بھائی نے ترکہ میں ایک مکان اور 19000 روپے نقدی چھوڑا۔ مکان کی قیمت تقریباً 25000 روپے تھی۔ 19000 روپے کی رقم والدہ کے پاس محفوظ تھی جس کی موجودگی کا مجھے بالکل علم نہ تھا۔ والدہ نے میرے علم میں لائے بغیر ترکہ میں سے بہن کے حصے کے عوض 5 مرلے کا پلاٹ مبلغ 14000 روپے میں خرید کر رجسٹری ہمشیرہ کے نام کر دی، اور اس کی ادائیگی 19000 میں سے کی گئی۔ یہ سب کچھ رشتہ داروں کے مشورہ اور بہن کی رضا مندی سے ہوا۔ 19000 میں سے بقیہ 5000 کی رقم والدہ نے خود ہی کچھ مسجد میں دے دی، اور کچھ اپنے بھانجے ، بھانجیوں میں تقسیم کر دی۔ مجھے بعد میں اس بات کی ساری تفصیل معلوم ہوئی۔ والدہ نے اپنی زندگی ہی میں اپنا سارا زیور بہن کے نام کر دیا، اور مکان میں اپنا حصہ اپنی مرضی سے میرے نام منتقل کر دیا اور میری والدہ اور بہن نے میرے ساتھ جا کر اپنی رضا اور خوشی سے مکان کی رجسٹری میرے نام منتقل کرنے پر دستخط کیے۔ والدہ صاحبہ 1985-2-2 کو انتقال فرما گئیں۔ اس تفصیل کے پیش نظر اب پوچھنا یہ ہے کہ

1۔ والدہ نے اپنی مرضی سے اپنا حصہ مجھے دیا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟

2۔ کیا میرے ذمہ ہمشیرہ کا کوئی حصہ باقی ہے؟

3۔ کیا ہمشیرہ کے ذمہ میرا کوئی حصہ باقی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں والدہ نے اپنا جو حصہ آپ کو دیا وہ درست ہے۔

2۔ آپ کے ذمہ ہمشیرہ کا کوئی حصہ نہیں۔

3۔ ہمشیرہ کے ذمہ بھی آپ کا کوئی حصہ نہیں۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ آپ کے بھائی کے چھوڑے ہوئے ترکہ کی کل مالیت 44000 روپے بنتی ہے، جس میں سے آپ کے 24444.44 روپے بنتے ہیں، جو کہ آپ کو مکان کی صورت میں مل چکے ہیں۔ اور آپ کی بہن کے 12222.22 روپے بنتے ہیں جو کہ ان کو پلاٹ کی شکل میں مل چکے ہیں۔ اور آپ کی والدہ کے 7333.33 روپے بنتے ہیں، جس میں سے کچھ انہوں نے آپ کو مکان میں اپنے حصے کی شکل میں دے دیے، اور کچھ اپنی بیٹی کو پلاٹ کی قیمت میں شامل کر کے دے دیے۔ اور باقی اپنی زندگی میں خرچ کر چکی۔ صورت تقسیم یہ ہے:

6×3= 18                                    

والدہ                  بھائی               بہن

6/1                           عصبہ

1×3                          5×3

3                              15

3                     10               5

قال في الدر مع رد المحتار (10/ 547):

و للأم ثلاث أحوال (السدس مع أحدهما أو مع اثنين من الإخوة أو) من (الأخوات) فصاعداً من أي جهة كانا و لو مختلطين. و في الشامية تحت قوله (مع أحدهما) أي الولد و ولد الابن ذكراً أو أنثى. ……………………….. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved