- فتوی نمبر: 6-230
- تاریخ: 23 جنوری 2014
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
1۔ براہ کرم مختصراً یہ بیان فرما دیں کہ تکافل کیا ہے؟ تکافل اور انشورنس میں کیا فرق ہے؟
تکافل کی شرعی حیثیت
2۔ کیا تکافل اسلامی شرعی اصولوں کے مطابق جائز ہے یا نہیں؟
تکافل کی رقم سے حج و عمرہ کرنا
3۔ نیز یہ بھی بیان کیجیے کہ اس سے حاصل ہونے والی رقم سے حج و عمرہ بھی ادا کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
تکافل کمپنی کے ساتھ لین دین
4۔ تکافل کمپنی کے ساتھ معاملات کرنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
عام مروجہ انشورنس کے بارے میں تو سب کو پتہ ہے کہ سود اور جوئے پر مشتمل ہے۔ تکافل (اسلامی انشورنس) جو اب کچھ سالوں سے وجود میں آیا ہے یہ کفالت کے معنیٰ میں ہے۔ اس میں اصل بنیاد وقف پر ہے۔ تکافل کمپنی اپنے اور کاروبار کے ساتھ ایک وقف فنڈ قائم کرتی ہے، تکافل کمپنی اس وقف کی شرائط میں یہ شامل کرتی ہے (مثلاً کار کی اسلامی انشورنس میں) کہ جو کار والا اس فنڈ میں اتنی رقم جمع کرائے گا وہ اس فنڈ کا ممبر بن جائے گا اور اس کی کار کو کچھ حادثہ پیش آیا اور فنڈ میں رقم موجود ہو تو فنڈ اس کے نقصان کا تدارک کرے گا۔ ممبر قانونی طور پر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ یہ میرا حق ہے جو مجھے دیا جائے بلکہ یوں کہہ سکتا ہے کہ وقف فنڈ کی شرائط میں سے ہے کہ اس وقف فنڈ میں سے ممبر کے نقصان کا تدارک کیا جائے۔ پھر جتنا چندہ دے گا اس کے مطابق ہی تدارک ہو گا اگر زیادہ تو زیادہ اور اگر کم تو کم۔
تکافل کا نظام دینے والے علماء کا یہ موقف ہے کہ یہ معاوضہ کا معاملہ نہیں ہے تبرع کا ہے جبکہ دیگر حضرات اس کو معاوضہ ہی سمجھتے ہیں اور صرف لفظی ہیر پھیر سمجھتے ہیں۔ ہماری رائے بھی تکافل کے خلاف ہے۔ تفصیل دیکھنا چاہیں تو ہمارا مضمون اس کتاب میں دیکھیے "تکافل کی شرعی حیثیت” از مفتی راشد ڈسکوی۔
تکافل کمپنی کے ساتھ معاملات کرنا جائز نہیں ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved