- فتوی نمبر: 32-55
- تاریخ: 03 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
دو ماہ قبل میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے ۔میری عمر52 سال کے قریب ہے اور ہمیشہ یہی سنا اور پڑھا ہے کہ وراثت کی تقسیم میں دیر نہ کی جائے اسی وجہ سے انتقال کے دوسرے دن سے ہی میں سوچنے لگا کہ اس کام میں دیر نہیں کرنی ہے۔ ہم چار بہن بھائی ہیں یعنی سب سے بڑے بھائی پھر دو بہنیں اور آخر میں، میں خود۔ بڑے بھائی کی عمر 65 سال کے قریب ہے اور الحمدللہ والدہ بھی حیات ہیں۔ والد صاحب کے والدین حیات نہیں ہیں۔
بڑے بھائی سے تذکرہ کیا تو کہنے لگے جلدی کیا ہے سب ہو جائے گا اور اتنا بڑا گھر چھوڑ کر کیا چھوٹے گھر میں چلے جائیں۔میں نے کہا جانا تو پڑے گا شرعی حکم ہے اور اب بہنیں بھی والد کے مکان اور دیگر اشیاء پر حق رکھتی ہیں۔ مختصر یہ کہ آپ شرعی اعتبار سے تقسیم رہنمائی فرما دیں ویسے وراثت کے اصول سے کم و بیش سب ہی واقف ہوتے ہیں لیکن مکمل دینی اور شرعی احکامات کے مطابق عالم دین سے رہنمائی ضروری ہے ۔
والد صاحب کی وراثت میں ایک مکان ہے 240 گز رقبے پر جس کی مالیت تقریبا چار کروڑ کے قریب ہے والد صاحب پر کوئی قرضہ نہیں تھا اور نہ انہوں نے کوئی وصیت کی۔ برائے مہربانی دو بھائی دو بہنیں اور ایک بیوہ کے لیے تقسیم کا اندازہ بیان فرما دیں۔
مزید یہ کہ بڑے بھائی چونکہ ایک فلور پر اکیلے رہائش پذیر ہیں اور والد صاحب کی زندگی میں ہی انہوں نے اپنی سہولت کے پیش نظر کچھ کام مکان کی تزئین و آرائش کا کروایا تھا مثلا نیا کچن اور فلور ٹائلز وغیرہ اور اب بھائی کا مطالبہ ہے کہ میرے خرچ کیے ہوئے پیسے بھی مجھے ملنے چاہئیں اور شرعی حصہ بھی جبکہ والد صاحب نے ایسا کوئی ایگریمنٹ نہیں کیا تھا ،نہ تحریری اور نہ زبانی۔ رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ خرچ کی ہوئی رقم جو کہ اپنی سہولت کے لیے کی گئی تھی وہ بھی حصہ کے ساتھ الگ دی جائے گی اور کیا قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے یہ رقم بھی وارثین کے مال میں سے ہی منہا کی جائے گی؟
وضاحت مطلوب ہے : والد صاحب نے اس خرچے کی اجازت دی تھی؟ جب ان کے سامنے اس کا تذکرہ ہوا تو انہوں نے کیا کہا؟
جواب وضاحت: نہیں ایسا کچھ نہیں تھا، البتہ جب والد صاحب کے سامنے اس کا تذکرہ ہوا تو انہوں نے کچھ بھی نہیں کہا ، خاموش رہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں جو خرچہ آپ کے بڑے بھائی نے اپنے رہائشی فلور پر کیا تھا وہ وراثت میں سے انہیں ادا کیا جائے گا اور باقی کل جائیداد یا اس کی قیمت کے کل 48 حصے کیے جائیں گے جن میں سے 6 حصے (12.5فیصد) مرحوم کی بیوی کو ، 14 حصے (29.16 فیصد فی کس) مرحوم کے ہر بیٹے کو اور 7 حصے (14.58 فیصد فی کس) مرحوم کی ہر بیٹی کو ملیں گے۔
صورت تقسیم درج ذیل ہے:
8×6=48
بیوی | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی |
8/1 | عصبہ | |||
1 | 7 | |||
1×6 | 7×6 | |||
6 | 42 | |||
6 | 14 | 14 | 7 | 7 |
الدر المختار (6/747) میں ہے:
(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها (ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها فالعمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك»
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved