• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نماز عید میں  زائد تکبیرات کی تعداد

استفتاء

عید کی نماز کے احکامات کے متعلق احادیث پڑھتے ہوئے مندرجہ ذیل تین احادیث پڑھنے کا  بھی موقع ملا:

سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، تفریع  ابواب الجمعۃ، باب التکبیرات فی العیدین ، حدیث نمبر 1152،1151،1149   ہیں:

1149- عن عروة، عن عائشة، ان رسول الله ﷺ كان يكبر في الفطر والاضحى في الاولى سبع تكبيرات، وفي الثانية خمسا”

ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ عید الفطر اور عید الاضحی کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے تھے ۔

1151- عن عبد الله بن عمرو بن العاص، قال: قال نبي الله ﷺ التكبير في الفطر سبع في الاولى، وخمس في الآخرة، والقراءة بعدهما كلتيهما”

عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی کریم ﷺنے فرمایا عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں، اور دونوں میں قرأت تکبیر (زوائد) کے بعد ہے۔

1152- عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان النبي ﷺ كان يكبر في الفطر الاولى سبعا، ثم يقرا، ثم يكبر، ثم يقوم فيكبر اربعا، ثم يقرا، ثم يركع قال ابو داود: رواه وكيع، وابن المبارك، قالا : سبعا وخمسا”

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺعید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہتے تھے پھر قرأت کرتے پھر الله اكبر کہتے پھر (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے تو چار تکبیریں کہتے پھر قرأت کرتے پھر رکوع کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے وکیع اور ابن مبارک نے بھی روایت کیا ہے، ان دونوں نے سات اور پانچ تکبیریں نقل کی ہیں۔

عید کی نماز جتنی تکبیروں کے ساتھ ہم پڑھتے ہیں اس سے متعلق کوئی صحیح حدیث بتا دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سنن ابو داؤد کی جو احادیث آپ نے بھیجی ہیں ان سے اگلی حدیث احناف کے قول کی دلیل ہے  جس میں چار تکبیروں کا ذکر ہے اور ا س میں چار تکبیریں پہلی رکعت میں مع تکبیر تحریمہ کے مراد ہے اور دوسری رکعت میں چار تکبیریں مع رکوع کی تکبیر کے مراد ہیں اور یہی  احناف کے نزدیک راجح ہے۔

چناچہ سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، تفریع  ابواب الجمعۃ، باب التکبیرات فی العیدین ، حدیث نمبر 1153 میں ہے:

1153- عن مكحول قال : اخبرني ابو عائشة جليس لابي هريرة، ان سعيد بن العاص سال ابا موسى الاشعري، وحذيفة بن اليمان: كيف كان رسول الله ﷺ يكبر في الاضحى والفطر؟ فقال ابو موسى: كان يكبر اربعا تكبيره على الجنائز، فقال حذيفة: صدق، فقال ابو موسی: كذلك كنت اكبر في البصرة حيث كنت عليهم، وقال ابو عائشة: وانا حاضر سعيد بن العاص”

مکحولؒ سے روایت ہے : فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرۃ ؓ کے ہم نشین حضرت ابوعائشہ نے مجھے خبر دی ہے کہ حضرت سعید بن العاص ؓنے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ اور حضرت حذیفہ بن یمان ؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺعید الاضحی اور عید الفطر میں کیسے تکبیریں کہتے تھے؟ تو حضرت ابوموسیٰ  ؓنے کہا: چار تکبیریں کہتے تھے جنازہ کی چاروں تکبیروں کی طرح، یہ سن کر حضرت حذیفہؓ نے کہا: انہوں نے سچ کہا، اس پر ابوموسیٰؓ نے کہا: اتنی ہی تکبیریں میں  بصرہ میں کہا کرتا تھا، جہاں پر میں حاکم تھا، ابوعائشہ کہتے ہیں: میں اس وقت حضرت سعید بن العاص ؓ کے پاس موجود تھا۔

شرح معانی الآثار، کتاب الزیادات، باب صلاۃ العیدین کیف التکبیر فیھا، حدیث نمبر 7273 (طبع: عالم الكتب بيروت، جلد نمبر 4  صفحہ نمبر 345)پر ہے:

"أن القاسم أبا عبد الرحمن حدثه قال حدثني بعض أصحاب رسول الله ﷺ قال صلى بنا النبي ﷺ يوم عيد فكبر أربعا وأربعا ثم اقبل علينا بوجهه حين أنصرف قال لا تنسوا كتكبير الجنائز وأشار بأصابعه وقبض إبهامه فهذا حديث حسن الإسناد”

ابو عبدالرحمٰن قاسم فرماتے ہیں کہ مجھے رسول الله ﷺ کے بعض صحابہ نے بتایا کہ نبی اکرم ﷺنے عید کی نماز پڑھائی تو چار چار  تکبیریں کہیں، جب نماز سے فارغ ہوئےتو ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا   بھول مت جانا عید کی تکبیرات جنازہ کی تکبیرات کی طرح  ہیں اور آپ ﷺ نے ہاتھ کی چار انگلیوں کا اشارہ فرمایا اور انگوٹھا بند کرلیا۔

شرح معانی الآثار، کتاب الجنائز، باب التکبیر  علی الجنائز، حدیث نمبر 2846 (طبع: عالم الكتب بيروت، جلد نمبر 1  صفحہ نمبر 495)پرہے:

 "عن إبراهيم قال : قبض رسول الله ﷺ والناس مختلفون في التكبير على الجنائز لا تشاء أن تسمع رجلا يقول سمعت رسول الله ﷺ يكبر سبعا وآخر يقول سمعت رسول الله ﷺ يكبر خمسا وآخر يقول سمعت رسول الله ﷺ يكبر أربعا الا سمعته فاختلفوا في ذلك فكانوا على ذلك حتى قبض أبو بكر رضي الله عنه فلما ولى عمر رضي الله عنه ورأى اختلاف الناس في ذلك شق ذلك عليه جدا فأرسل الى رجال من أصحاب رسول الله ﷺ فقال إنكم معاشر أصحاب رسول الله ﷺ متى تختلفون على الناس يختلفون من بعدكم ومتى تجتمعون على أمر يجتمع الناس عليه فانظروا أمرا تجتمعون عليه فكأنما أيقظهم فقالوا نعم ما رأيت يا أمير المؤمنين فأشر علينا فقال عمر رضي الله عنه بل أشيروا أنتم على فإنما أنا بشر مثلكم فتراجعوا الأمر بينهم فأجمعوا أمرهم على أن يجعلوا التكبير على الجنائز مثل التكبير في الأضحى والفطر أربع تكبيرات فأجمع أمرهم على ذلك”

مشہور تابعی حضرت ابراھیم نخعی ؒ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کی وفات ہو گئی اور لوگوں میں  جنازہ پر تکبیروں (کی تعداد )میں اختلاف تھا  ۔ اس حوالہ سے جو بات بھی آپ سننا چاہیں سن سکتے تھے ، کوئی کہتا میں نے حضور ﷺ کو جنازہ پر سات تکبیریں کہتے سنا ، کوئی کہتا میں نے حضور ﷺ کو جنازہ پر پانچ تکبیریں کہتے سنا ،کوئی کہتا میں نے حضور ﷺ کو جنازہ پر چار تکبیریں کہتے سنا، پس لوگ اس معاملہ میں اختلاف کرتے تھے  ۔حضرت ابو بکرؓ کی وفات  تک لوگ اسی حالت پر رہے۔ جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنے اور اس معاملہ میں لوگوں کا اختلاف دیکھا تو ان پر  یہ بہت گراں گزرا تو آپ ؓ نے نبیﷺ کے صحابہ کرام ؓ کو بلوایا اور فرمایا تم نبیﷺ کے صحابہ کی جماعت ہواور جب تم لوگوں کے سامنے اختلاف کرو گے تو تمہارے بعد والے  بھی اختلاف کریں گے اور اگر تم کسی ایک معاملہ پر اجماع کر لو گے تو  لوگ بھی اس پر اتفاق کر لیں گے تو تم ایسا معاملہ دیکھ لو جس پر تم اجماع کرتے ہو گویا کہ حضرت عمر ؓ نے ان کو خبردار کیا۔تو انہوں نے کہا کہ آپ کی رائے بہت اچھی ہے آپ ہمیں  اشارہ فرمائیں تو  حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ بلکہ تم مجھے مشورہ دو کیونکہ میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں چنانچہ انہوں نے اس معاملہ میں باہم گفتگو کی اور بالآخر صحابہ کرامؓ نے نماز عید الفطر اور عید الاضحی میں چار تکبیرات کی طرح جنازہ کی چار تکبیرات رکھنے پر اتفاق کیا اور اس پر ان سب صحابہؓ کا اجماع ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved