• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نواسے، نواسیوں کا نانا کی جائیداد میں حصہ

استفتاء

مفتی صاحب گذارش ہے کہ میری بہن میرے والد صاحب کی زندگی میں ہی فوت ہوگئی تھی جبکہ والد صاحب کا انتقال بعد میں ہوا اب میری بہن کے بچے میرے والد صاحب کی وراثت میں حصہ دار ہیں یا نہیں؟  ہمیں قانونی کاروائی کے لیے تحریری فتویٰ چاہیے۔

وضاحت مطلوب ہے: آپ کے والد کی وفات کے وقت ان کے  ورثاء میں کون کون موجود تھا؟ آپ کے والد کی وفات کے وقت آپ کی والدہ اور آپ کے دادا،دادی حیات تھے؟ اگر حیات تھے تو کیا ابھی تک حیات ہیں؟ اگر فوت ہو چکے ہیں تو کب فوت ہوئے؟

جواب وضاحت: والدہ،تین بیٹے  اور دو بیٹیاں   جبکہ دو بیٹیاں وفات پا چکی ہیں ،دادی 1974 میں فوت ہوچکی  ہیں اور دادا کا انتقال دادی سے بھی پہلے ہو گیا تھا۔بیٹیاں باپ سے پہلے وفات پا چکی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شرعی طور پر آپ کی بہن کے بچے آپ کے والد صاحب کی وراثت میں حصہ دار نہیں ہیں کیونکہ بیٹوں  کی موجودگی میں نواسے، نواسیاں وارث نہیں  بنتے اور اسی طرح آپ کی بہن  بھی ورثاء میں شامل    نہیں کیونکہ وارث وہی بنتا ہے جو مورث کی وفات کے وقت زندہ ہو جبکہ آپ کی بہن   باپ کی زندگی میں فوت ہوگئی تھی تاہم اگر دیگر ورثاء (جو بالغ ہوں)  اپنی مرضی سے بہن کے بچوں کو حصہ دیں تو   کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔

در مختار (10/550)میں ہے:

ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف: جزء الميت، ثم أصله، ثم جزء أبيه، ثم جزء جده. (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب، فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الاب ويكون مع البنت.

شامی(10/543) میں ہے:

ان شرط الارث وجود الوارث حيا عند موت المورث

ہندیہ (5/344) میں ہے:

‌وإن ‌اتخذ ‌طعاما للفقراء كان حسنا إذا كانت الورثة بالغين، فإن كان في الورثة صغير لم يتخذوا ذلك من التركة، كذا في التتارخانية.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved