- فتوی نمبر: 33-47
- تاریخ: 10 اپریل 2025
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات > عشر و خراج کا بیان
استفتاء
1۔سبزیوں میں عشر کا کیا حکم ہے؟ مثلا گوبھی، مٹر، ٹماٹر وغیرہ۔
2۔ چارے میں عشر کا کیا حکم ہے؟ مثلا مکئی، جوار، جؤ، باجرہ۔
3۔نیز بھوسے میں عشر کا کیا حکم ہے؟
4۔اگر چارے میں عشر واجب ہو تو اسکی صورت سمجھ نہیں آ رہی تھوڑی تفصیل ہے ،اسطرح تو عشر نکالنا مشکل ہو جائے گا مثلا مکئی لگائی تو عام طور پر زمیندار ایسا کرتے ہیں کہ ابھی تک اسکا پھل نہیں نکلتا اسکو کاٹ کرجانوروں کو ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔
کچھ عرصے کے بعد پھل نکلتا ہے تو کچا ہی ہوتا وہ اسکو بھی چارے میں کاٹ کر چارے میں استعمال کرتے ہیں بعد ازاں جب پھل پک جاتا ہے تو اسوقت پھل کو الگ اتارتے ہیں اور اسکو بیج کے لیے استعمال کرتے ہیں یہ اسوقت جب فصل بالکل اخیر میں ہوتی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ عشر کس کا ادا کرے گا؟ اگر وہ شروع میں نہ کاٹتا تو ابھی 100,من غلہ بن جاتا اب صرف دس من نکلا ۔نیز چارہ اسے کے بغیر گزارہ بھی نہیں کہ وہ آخر تک انتظار کرے۔اسکی صورت یہ ہے کہ مثلا 50کنال میں مکئی لگائی جب مکئی بڑی ہوگئی ابھی تک پھل نہیں نکلا تھا کہ 20کنال کاٹ لی پھر پھل آگیا ابھی تک پکا نہیں تھا کہ 20کنال کاٹ دی یہ سب جانوروں کو کھلا دیا باقی دس کنال رہی اب وہ پک گئی اب اسکی چھلی کو الگ کیا یہ اب عشر یا بیج کے لیے ہو سکتی ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1- سبزیوں میں بھی عشر واجب ہے۔
2-چارے (مکئی جوار جو باجرہ وغیرہ) میں بھی عشر واجب ہے۔
3-جس بھوسے سے اناج حاصل کیا گیا ہو اس میں عشر واجب نہیں۔
نوٹ: جس زمین کو نہری پانی لگتا ہو یا ٹیوب ویل کا پانی لگتا ہو اس میں عشر سے مراد پیداوار کا بیسواں حصہ ہے۔
4-اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کھڑے کھیت میں سے عشر کے بقدر حصہ متعین کر کے کسی مستحق زکوۃ کو دے دیا جائے پھر وہ مستحق جو چاہے اس کا کرے مزید تفصیل کی ضرورت ہے تو03004275177 پر رابطہ کریں ۔
ہندیہ (1/186) میں ہے:
ويجب العشر عند أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – في كل ما تخرجه الأرض من الحنطة والشعير والدخن والأرز، وأصناف الحبوب والبقول والرياحين والأوراد والرطاب وقصب السكر والذريرة والبطيخ والقثاء والخيار والباذنجان والعصفر، وأشباه ذلك مما له ثمرة باقية أو غير باقية قل أو كثر هكذا في فتاوى قاضي خان سواء يسقى بماء السماء أو سيحا يقع في الوسق أو لا يقع هكذا في شرح الطحاوي.
امداد الفتاویٰ (2/94) میں ہے:
سوال: چری جو بیل ،بھینس وغیرہ ہری کھاتے ہیں جو بونے سے تھوڑے ہی عرصہ بعد کاٹنا شروع ہوجاتی ہے جانوروں کے کھلانے کے واسطے اور جب تک اس میں جو ار آتی ہے بہت کاٹ کر جانوروں کو کھلادی جاتی ہے، ایسی زراعت میں زکوٰۃ کس صورت سے ادا کی جائے اور زکوٰۃ چری پر بھی ہے اور جوار پر بھی اور چری پر ہے تو چری کا کھڑا دسواں حصّہ دینے سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی یانہیں ؟
الجواب: دسواں یا بیسواں حصّہ جیسی زمین ہو سب پیداوار پر ہے۔ اس صورت میں بہتر ہے کہ کھڑے کھیت میں سے اندازہ کرکے اتنا علیحدہ کردیا جائے اخیر میں اس کو یا اس کے داموں کو مصرف عشر میں خرچ کردیا جائے۔
مسائل بہشتی زیور (1/372) میں ہے:
کس پیداوار پر عشر واجب ہے او ر کس پر نہیں
اس بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ زمین سے جو پیداوار بطور فائدہ اور آمدن کے اصل مقصود ہو اس میں عشر واجب اور جو پیداوار اصلا مقصود نہیں اس میں عشر واجب نہیں ۔
مندرجہ ذیل پیداوار میں عشر واجب:
1۔ہر قسم کے اناج ، ساگ، ترکاری، میوہ ، پھل وغیرہ
2۔السی کے پیڑ اور بیج۔
3۔کپاس
4۔تمباکو اور افیون
5۔جانوروں کے چارہ کے لیے جو گھاس اگائی جیسے پرسین ، جوار اور مٹر وغیرہ۔
مندرجہ ذیل میں عشر واجب نہیں:
1۔بھوسہ اور سوکھی چری جس سے اناج حاصل کیا گیا ہے البتہ اگر دانہ پڑنے سے پہلے ہی اس کو کاٹ لیا گیا ہو تو اس میں بھی عشر ہے۔
فتاوی دارالعلوم دیوبند( 6/131) میں ہے:
سوال:اگر بیلوں کے چارہ کے واسطے کسان چند کھیت بودے تو ایا اس کھیتی میں عشر دینا چاہیے یا نہیں؟
جواب: عشر ان کھیتی میں بھی جو جانوروں کے چارہ کے لیے ہے اور غلہ اس میں پیدا ہوا واجب ہے اگر زمین بارانی ہے تو دسواں حصہ اور اب پاشی کی زمین سے بیسواں حصہ نکالنے واجب اور اگر کھیت کو بلا دانہ اور بلا پختگی کے کاٹ کر جانوروں کو کھلایا جائے یعنی گھاس کو ہی کھلایا جائے تو عشر واجب نہیں۔
يجب العشر مسقي سماء اي مطر مسيح كنهر بلا شرط نصاب الى قوله الا فيما لا يقصد به استغلال الارض نحو حطب الى اخر.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved