• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اخبارات میں آیات قرآنیہ لکھنا

استفتاء

مجھے اخبارات  پر لکھی ہوئی آیات قرآنی کے حوالے سے فتوی چاہیے  کہ آیا یہ آیات اخبار پر لکھی جانی چاہیئں یا نہیں ؟ کیونکہ یہ اخبارات پاؤں کے نیچے بھی روندی جاتی ہیں اور کوڑا کرکٹ میں بھی جاتی ہیں ۔ عام آدمی ان کی حفاظت کرنے سے قاصر ہے اور نہ  ہی ان کی حفاظت ہو سکتی ہے ۔ لہذا ا س صورتحال کے متعلق مجھے فتوی چاہیے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

قرآنی آیات کا احترام ضروری ہے اس لیے جہاں اندیشہ ہو کہ قرآنی آیات کا احترام نہیں رکھا جائے گا وہاں قرآنی آیات لکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ فقہاء نے مسجد کی دیواروں پر آیات قرآنیہ اور مقدس ناموں کے لکھنے سے منع فرمایا ہے اور وجہ یہ بتائی ہے کہ لکھائی کے جھڑ کر گرنے کا خطرہ رہتا ہے جس کی وجہ سے آیات قرآنیہ اور مقدس ناموں کی بے احترامی کا خطرہ ہے ۔لہذا اخبارات میں بھی قرآنی آیات نہیں لکھنی چاہئیں ۔تا ہم اگر کسی اخبار میں آیات چھپی ہوں تو ان آیات کا احترام  اخبار خریدنے والے کے ذمہ  ہے ۔

تبیین الحقائق (1/58) میں ہے :

ويكره ‌كتابة ‌القرآن وأسماء الله تعالى على ما يفرش لما فيه من ترك التعظيم، وكذا على المحاريب والجدران لما يخاف من سقوط الكتابة

النہایہ ( 3/103) میں ہے :

وليس بمستحسن ‌كتابة ‌القرآن على المحاريب والجدران لما يخاف من سقوط الكتابة، وأن يوطأ۔

فتح القدیر (1/169) میں ہے

یكره ‌كتابة ‌القرآن وأسماء الله تعالى على الدراهم والمحاريب والجدران وما يفرش

آپ کے مسائل اور ان کا حل (8/684) میں ہے :

سوال : آج کل دیکھا جاتا ہے کیلنڈروں اور کتابوں کے سرورق وغیرہ پر بسم اللہ الرحمن الرحیم یا قرآن پاک کی آیت ٹیڑھی اور ترچھی لکھی جاتی ہے، کیا ایسا لکھنا خلاف ادب اور باعث گناہ تو نہیں؟

جواب : اگر ان کو  ادب و احترام سے رکھا جاتا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں، اور اگر ان کے پامال ہونے کا اندیشہ ہو تو نہیں لکھنی چاہئیں ۔

فتاوی محمودیہ(  3/535) میں ہے :

سوال  : بعض اخبارات ورسائل میں قرآن پاک کی آیات شائع ہوتی رہتی ہیں جن کو لوگ عام طور سے ردی میں فروخت کر دیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ردی میں فروخت کرنا اور اخبارات و رسائل میں آیات کا شائع کرنا کیسا ہے؟ نیز اگر صرف اردو یا ہندی ترجمہ شائع کریں تو صورت مذکورہ میں اس کا کیا حکم ہے؟ فقط ۔

جواب:دین کی اشاعت کے لئے آیات کا لکھنا اور ان کا ترجمہ کرنا اور ان کا چھاپ کرنا درست ہےلیکن ان کا ردی میں استعمال کرنا درست نہیں ، احترام کے خلاف ہے محض ترجمہ کا بھی احترام لازم ہے۔ فقط واللہ سبحانہ اعلم ۔

فتاوی محمودیہ(  3/536) میں ہے :

سوال: خط کے اوپر بسم الله الرحمن الرحیم لکھنا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب حامداً ومصلياً :برکت کے لئے جائز ہے، اگر کسی جگہ یہ احتمال ہو کہ پورا پورا ادب نہیں ہو سکے گا تو پھر احتیاط کرے ۔فقط واللہ تعالی اعلم ۔

فتاوی عثمانی (1/187) میں ہے :

سوال: – مولانا احتشام الحق صاحب جو جمعہ کو اخبار میں آیتیں چھپواتے ہیں، وہ دُکاندار،ردی میں پھینک دیتے ہیں ، کیا یہ درست ہے؟

جواب :- جن کا غذات پر اللہ ، رسول کا نام یا قرآنی آیات و احادیث لکھی یا چھپی ہوں ان کو بے حرمتی کی جگہ ڈالنا درست نہیں ہے ۔  واللہ اعلم

فتاوی عثمانی (1/193) میں ہے :

سوال: – اخبارات و اشتہارات میں عبارات قرآن و احادیث کا چھاپنا اور ان کی بے حرمتی کرنا کیسا ہے؟ اور اس کی روک تھام کیسے کی جائے؟

جواب : – جن کا غذات پر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی لکھا، یا چھپا ہوا ہو ان کو بے حرمتی کے مقامات پر رکھنا یا پھینکنا بالکل نا جائز ہے؟ انسان کو چاہئے کہ خود بھی اس سے پر ہیز کرے اور جس حد تک ممکن ہو دوسروں کو بھی اس سے روکے، اگر ہر شخص اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کر کے اس بات کا اہتمام کرے تو اس فعلِ نا جائز کا شیوع بڑی حد تک رک سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved