• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

وراثت کی تقسیم سے پہلے زکوٰۃ کا حکم

  • فتوی نمبر: 33-100
  • تاریخ: 28 اپریل 2025
  • عنوانات:

استفتاء

میرے والد صاحب 2007 میں وفات پاگئے تھے۔ اُن کے انتقال کے بعد ہمیں (گھر والوں کو) یہ معلوم ہواکہ اُنہوں نے لاہور میں واقع اپنے دفتر کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں 1 عدد پلاٹ رقبہ 5 مرلہ لیا اور وہ ابھی تک والد صاحب کے نام پر ہے۔ اور بیوی بچوں کے  نام پر انتقال نہیں کروایا گیا۔ 2007 کے بعد جب سوسائٹی والوں نے خطوط لکھنا شروع کئے تو اُس وقت سے آج 2024تک ہر سال سوسائٹی کے مقرر کردہ ریٹ کے حساب سے میری والدہ محترمہ (زوجہ پلاٹ مالک) ٹیکس ادا کرتی رہی ہیں۔ 2007 میں جب والدصاحب فوت ہوئے تو وہ اپنے پیچھے 1 بیوہ، 5 بیٹے اور 1 بیٹی چھوڑ کر گئے تھے۔ بعد میں بیٹی کا انتقال 2017 میں ہوگیا ہے جس کی شادی نہیں ہوئی تھی اب صرف میری والدہ صاحبہ اور ہم 5 بھائی حیات ہیں۔ جس میں سے سب سے بڑا بھائی 36 سال کا ہے اور اُس کا دماغ میڈیکل طور پر پیچھے رہ گیا ہے(یعنی نہ تو وہ پیسے سنبھال سکتا ہے اور نہ ہی وہ مانگتا ہے، اور وہ پچھلے 17 سالوں میں (2007 تا 2024)  جب جب وہ بے روزگار رہا، تو اُس کا خرچہ والدہ صاحبہ کے ذمہ تھا۔اب کچھ وقت سے وہ فیکٹری میں کام کرتا ہے۔ اور اُس کا خرچہ والدہ صاحبہ کے ذمہ ہے)۔ بڑے بیٹے کے علاوہ 3 بھائی اور ہیں جو برسرروزگار ہیں۔ اور اپنا خرچہ خود اُٹھاتے ہیں۔ آخر میں سب سے چھوٹے بھائی نمبر 5 پر ہے جو کہ کالج میں پڑھتا ہے۔ اور اُس کا خرچہ بھی والدہ صاحبہ کے  ذمہ ہے۔ 3بھائیوں کی شادی ہوئی اور والدہ صاحبہ نے خرچہ کیا۔ 1 بھائی کی دوسری شادی پر بھی والدہ صاحبہ نے دوبارہ خرچہ کیا۔

2007 میں جب پلاٹ کا پتہ چلا تب معاشی حالات اتنے اچھے نہ تھے اور والد صاحب کی وفات سے والدہ صاحبہ کو صدمہ پہنچا تھا۔ اُس وقت والدہ صاحبہ نے یہ نیت کی تھی کہ پلاٹ کو بیچنا ہے کیونکہ پلاٹ کا ٹیکس نہیں دیا جاتا۔ جبکہ بیٹوں نے منع کیا اور اُسی ارادہ کو پورا نہ کروایا اور 2024 میں آج یہ سوچا ہے کہ اُس جگہ پر رہائش کرلی جائے۔ 2 یا 3بیٹے پلاٹ پر گھر بنا کر رہائش اختیار کر لیں جو سوسائٹی کے خرچے برداشت کرسکتے ہیں۔ باقی اپنے آبائی گھر میں رہ لیں۔ جو سوسائٹی کے خرچے برداشت نہیں کرسکتے۔  سوال یہ ہے کہ:

1۔ اب 1 والدہ صاحبہ اور 5 بیٹے ہیں تو کیا اگر اب اُس پلاٹ کو بیچا جائے تو زکوۃ کون دے گا؟ یا اگر بیچنے کی نیت کی جائے تو زکوۃ کس پرفرض ہوگی؟   1بیٹا یہ کہتاہے کہ 2007 سے زکوۃ واجب ہے اور ادا کرنی پڑے گی۔ اگر 2007 سے زکوۃ واجب ہے تو پھر زکوۃ کون دے گا؟ کیونکہ پلاٹ جس کے نام پر تھا وہ وفات پاگئے۔  اور اگر زکوۃ ابھی فرض نہیں ہوئی تو پھر جب پلاٹ بیچا جائے گا اور وراثت کا حصہ کیا جائے گا تب زکوۃ کون دے گا؟

2۔  اگر پلاٹ بیچا جاتا ہے تو پلاٹ پر ٹیکس جو والدہ صاحبہ نے ادا کیے ہیں جو کسی بیٹے نے نہیں دیئے تو کیا 17 سال کے ادا شدہ ٹیکس کی رقم اُن کو واپس ملے گی؟ اور وہ کس حساب سے رقم دی جائے گی۔ آج کی قیمت کے حساب سے یا 2007 سے 2024 تک کے گزشتہ سال کی قیمت کے لحاظ سے دی جائے گی؟

3۔اگر جائیداد کا حصہ تقسیم کیا جائے تو کس حساب سے ہوگا ؟اور اس تقسیم میں فوت شدہ بیٹی کا حصہ ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں اس پلاٹ پر زکوۃ نہیں نہ پچھلے سالوں کی اور نہ آئندہ کی البتہ جب اس کو فروخت کر کے اس کی قیمت ورثاء میں  تقسیم کی جائے تب قیمت پر زکوۃ آئے گی بشرطیکہ زکوۃ کی دیگر شرائط مثلا حصہ ملنے والی مذکورہ رقم نصاب کو پہنچ جائے اور صاحب نصاب ہونے کے بعد سال کا گزرنا پایا جائے یا اگر پہلے سے صاحب نصاب ہو تو جب زکوۃ کی تاریخ آئے گی اور مذکورہ رقم میں سے کچھ رقم موجود ہو تو بھی زکوۃ دینی ہوگی چاہے  مذکورہ رقم پر الگ سے سال نہ گزرا ہو۔

2۔مذکورہ صورت میں پلاٹ کی قیمت میں سے ٹیکس کی جتنی رقم والدہ نے ادا کی ہے وہ ان  کو علیحدہ سے ملے گی اور باقی رقم والدہ سمیت تمام ورثاء میں تقسیم کی جائے گی۔

3۔ ورثاء کے حصوں کی تفصیل یہ ہے کہ ترکہ کے 528 حصے کیے جائیں گے جن میں سے 73 حصے (13.82 فیصد)  والدہ کو اور ہر بیٹے کو 91 حصے (17.23 فیصد )  ملیں گے۔         بیٹی کا حصہ بھی نکالا جائے گا اور ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا جیسا کہ مذکورہ مسئلے میں بیٹی کا حصہ ورثا میں تقسیم کیا گیا۔

شامی(2/272) میں ہے:

‌وما ‌اشتراه لها) أي للتجارة (كان لها) لمقارنة النية لعقد التجارة (لا ما ورثه ونواه لها) لعدم العقد إلا إذا تصرف فيه أي ناويا فتجب الزكاة لاقتران النية بالعمل

شامی(6/511)  میں ہے:

وفي السراجية: ‌طاحون ‌مشترك أنفق أحدهما في عمارتها فليس بمتطوع؛ ولو أنفق على عبد مشترك أو أدى خراج كرم مشترك فهو متطوع في الكل من منح المصنف قلت: والضابط أن كل من أجبر أن يفعل مع شريكه إذا فعله أحدهما بلا إذن فهو متطوع وإلا لا

شرح  المجلہ(4/212) میں ہے:

المادة:1313 …………….ولكن له ان يستوفى المقدار الذى اصاب حصة شريكه من قيمة البناء وقت التعمير على الوجه المشروح يعني انه ينظر الى قيمة ما بناه يوم بنى.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved