• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بھیک اور زکوۃ کے پیسے استعمال کرنے کا حکم

استفتاء

میرے والد صاحب تیس (30) سال پہلے معذور ہوئے اور  ایک حادثہ میں ایک پاؤں کٹ گیا۔اب میں دور کسی علاقہ میں محلہ کا امام ہوں اور محلے والے سارا سال کا خرچہ دیتے ہیں اور میرے گھر کے سارے افراد یعنی والدہ، بیوی اور بہنیں وغیرہ  میرے ساتھ رہتے ہیں۔ والد صاحب اپنی پرانی عادت نہیں چھوڑتے یعنی بھیک مانگنے کے عادی ہیں اور کسی دور علاقہ میں غربت کے نام پر زکوۃ اکھٹی کرتے ہیں اور آدھی  خود استعمال کرتے ہیں اور آدھی ہمارےپاس لاتے ہیں اور میری بیوی اور میری والدہ کو خرچہ دیتے ہیں۔ اور ان پیسوں سے ہمارے گھر کے لئے کبھی گوشت اور کبھی پھل وغیرہ لاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم والد صاحب کا روپیہ  یا لایا ہوا سامان وغیرہ استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کے بقول آپ کے والد محض عادت کی وجہ سے مانگتے ہیں اور محض عادت کی وجہ سے مانگنا جائز نہیں اس لئے آپ کے لئے والد صاحب کا لایا ہوا روپیہ یا سامان استعمال کرنا جائز نہیں۔

رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الزکاۃ، باب المصرف (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 3صفحہ نمبر357) میں ہے:

"( ولا ) يحل أن ( يسأل ) من القوت ( من له قوت يومه ) بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحاله لإعانته على المحرم ( ولو سأل للكسوة ) أو لاشتغاله عن الكسب بالجهاد أو طلب العلم ( جاز ) لو محتاجا

قال ابن عابدين:  قوله (ولا يحل أن يسأل إلخ ) قيد بالسؤال ؛ لأن الأخذ بدونه لا يحرم بحر ، وقيد بقوله شيئا من القوت ؛ لأن له سؤال ما هو محتاج إليه غير القوت كثوب شرنبلالية . وإذا كان له دار يسكنها ولا يقدر على الكسب قال ظهير الدين : لا يحل له السؤال إذا كان يكفيه ما دونها معراج ، ثم نقل ما يدل على الجواز وقال وهو أوسع وبه يفتى قوله (كالصحيح المكتسب ) ؛ لأنه قادر بصحته واكتسابه على قوت اليوم بحر قوله (ويأثم معطيه إلخ ) قال الأكمل في شرح المشارق . وأما الدفع إلى مثل هذا السائل عالما بحاله فحكمه في القياس الإثم به ؛ لأنه إعانة على الحرام ، لكنه يجعل هبة وبالهبة للغني أو لمن لا يكون محتاجا إليه لا يكون آثما ا هـ "

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved