- فتوی نمبر: 33-108
- تاریخ: 30 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان > جن صورتوں میں نکاح منعقد ہو جاتا ہے
استفتاء
میری سالی کا خاوند فوت ہو گیا۔ اس سے اس کی ایک بیٹی تھی۔ پھر سالی کا نکاح اسی خاوند کے بھائی یعنی اپنے دیور سے ہو گیا جس سے اس کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہوا۔ سالی نے اپنی ایک بیٹی جو دوسرے خاوند سے تھی، اپنے بھانجے (بہن کے بیٹے) کے نکاح میں دی ۔ سالی کی مذکورہ بہن فوت ہو چکی ہے ۔ اب وہ اپنی بڑی بیٹی جو پہلے خاوند سے ہے، اپنے بہنوئی کے نکاح میں دینا چاہتی ہے۔ کیا وہ ایسا کر سکتی ہے؟اسلامی قوانین میں ہمیں شرعی مسئلہ بتائیں۔نکاح بنتا ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ کی سالی کا اپنی بیٹی کو بہنوئی کے نکاح میں دینا درست ہے۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں بہنوئی لڑکی کا خالو بنتا ہے جبکہ خالہ کی وفات ہو چکی ہے۔ خالہ کی وفات کے بعد خالو سے نکاح کرنا درست ہے۔ نیز یہ شخص (خالو) اس لڑکی کی بہن کا سسر ہے اور بہن کے سسر کے ساتھ کسی قسم کی محرمیت نہیں پائی جاتی۔لہذا نکاح درست ہے ۔
المبسوط للسرخسی(30/289) میں ہے:
إذا كان تحت الرجل امرأة فأختها محرمة عليه إلى غاية وهي أن يفارقها وكذلك ما في معنى الأخت كالعمة والخالة وبنت الأخ وبنت الأخت.
مسائل بہشتی زیور (2/51) میں ہے :
جن دو عورتوں میں ایسا رشتہ ہو کہ اگر ان دونوں عورتوں میں سے کوئی مرد ہوتی تو آپس میں دونوں کا نکاح نہ ہو سکتا۔ایسی دو عورتیں ایک ساتھ ایک مرد کے نکاح میں نہیں رہ سکتیں۔جب ایک مر جائے یا طلاق مل جائے اور عدت گزر جائے تب وہ مرد دوسری عورت سے نکاح کر سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved