• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مرحومہ کے ترکہ میں سے نماز و  روزہ کے فدیہ کی رقم مرحومہ کی بیٹی کو دینے كا حكم / بہنوں کو زکوۃ اور  نفلی صدقات دینے کا حکم

استفتاء

۱۱ فروری ؁۲۰۲۱ء کو میری والدہ محترمہ کی وفات ہوئی۔ امی کو عرصہ دراز سے بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق تھا۔ معدہ کی مریض تھی اور دل کا بھی مسئلہ تھا۔  دل کی دھڑکن تیز رہتی تھی اور ڈاکٹر نے تا عمر دوائی کھانے کا مشورہ دیا تھا۔ اندازے کے مطابق پچیس (25) سال  سے روزے نہیں رکھ رہی تھیں۔ روزہ رکھنے کی کوشش کرتی تھیں تو طبیعت خراب ہو جاتی تھی جس کی وجہ سے ڈاکٹر اور بچے منع کرتے تھے کہ روزہ نہ رکھیں۔ بلڈ پریشر کا مسئلہ شدید تھا اور وفات بھی بی پی (بلڈ پریشر) شوٹ  ہونے کی وجہ سے ہوئی۔

امی کی ملکیت میں کچھ سونا اور چاندی تھا۔ ابو کی بھی وفات ہو چکی ہے۔ ہم آٹھ (8)بہنیں اور پانچ (5) بھائی ہیں۔ ہم سب نے باقاعدہ باہمی رضامندی سے امی کا زیور بیچ کر روزوں اور نمازوں کا فدیہ دینے کا ارادہ کیا۔ مفتی صاحب کے مطابق وہ زیور شریعت کے مطابق ہم بہن بھائیوں کی ملکیت ہے تا ہم رضا مندی سے فدیہ ادا کیا جا سکتا ہے۔

ہم سات (7) بہنیں شادی شدہ اور ایک (1) بہن کنواری ہے۔ ایک بڑی بہن طلاق یافتہ ہیں۔ اس کی دو بیٹیاں  بڑیں اور بیٹا چھوٹا ہے۔ بڑی بیٹی میٹرک میں ہے، چھوٹی آٹھویں میں اور بیٹا ۱۱ سال کا ہے۔ گھر میں کوئی مرد کمانے والا نہیں ہے۔ بہن اور بیٹیاں گھر پر رہ کر کبھی سلائی اورکبھی جوتیوں کا کام  اور محنت مزدوری کرتی ہیں۔ ہفتہ میں دو سے تین دن ہانڈی پکتی ہے  اور کوئی مستقل ذریعہ آمدن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی کبھی راشن وغیرہ دے دے تو گزارہ ہو جاتا ہے (ایسا بہت کم ہوتا ہے)۔ رمضان میں ایک دو لوگ زکوۃ بھی دے دیتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ گھر کے حالات بہت خراب ہیں اور بہن خود بھی بلڈ پریشر اور کالے یرقان کی مریض ہیں۔ بہن پہلے کرائے کے گھر میں رہتی تھیں مگر حالات کی وجہ سے  کرایہ دینا بہت مشکل سے مشکل ترین ہوتا چلا جا رہا تھااس لئے دو سال سے گروی پر گھر لیا ہوا ہے جس کا کرایہ ایک ہزار (1000) روپےہے۔

گروی کی رقم ساڑھے چار لاکھ (450000) روپے ادا کی گئی تھی جس میں سے ایک لاکھ (100000)روپے امی نے انہیں دیے تھے ۔ باجی کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ رقم ادھار کی نیت سے لی تھی مگر امی نے رقم دیتے وقت خاموشی اختیار کی تھی یہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ رقم ادھار ہے یا نہیں۔ بس یہ کہا تھا اس رقم کے متعلق کسی کو مت بتانا۔ باجی نے امی کی وفات کے بعد بتایا کہ ایک لاکھ (100000)روپے میرے پاس ہیں۔

1) اس رقم کے متعلق بھی شریعت کے مطابق رہنمائیں فرمائیں کہ کیا یہ ادھار میں شامل ہو گی یا نہیں؟ مزید یہ کہ کیا اس کے متعلق تمام بہن بھائیوں کو بتانا ضروری ہے؟ اور اگر یہ ادھار ہے تو کیا ہم اپنی رضامندی سے  بہن کو دے سکتے ہیں؟

مزید یہ کہ اس ایک لاکھ (100000)روپے کے علاوہ مزید ایک لاکھ (100000)روپے بڑی بہن نے (اس بہن کوجس نے مکان گروی پر لیا تھا )ادھار دیے ہوئے ہیں۔ ساٹھ ہزار (60،000) روپے خالہ کے بیٹے نے زکوۃ کے طور پر دیے تھے جب گھر گروی پر لینا تھا  اور تقریباً ستر ہزار (70،000) روپےكا زیور تھا جو باجی نے فروخت کیا تھا اور باقی کی رقم بھی اسی طرح زکوۃ کی ہی تھی۔

2) سوال یہ ہے کہ امی کی فدیہ کی رقم جو تقریباً دو لاکھ (200000) روپے کے قریب ہے باجی (مکان گروی لینے والی طلاق یافتہ بہن) کو دی جا سکتی ہے؟ اگر ان کو نہیں تو کیا ان کے بچوں کے استعمال میں لائی جا سکتی ہے؟ ان کے اخراجات پورے کیے جا سکتے ہیں؟ یا بچیوں کے جہیز کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے ؟کیونکہ بیٹیاں دونوں بالغ ہیں۔

امی کی وفات کے بعد جن دنوں گھر میں بحث چل رہی تھی تو بھائی نے امی کو خواب میں دیکھا(بھائی جوتیوں کا کام کرتے ہیں)۔ وہ بتاتے  ہیں کہ خواب میں  دیکھا کہ خالہ کے بچے ،نواسے  اور نواسیاں سب مہمان آئے ہوئے ہیں  اور میں جوتیاں لے کر آتا ہوں تو خالہ کی نواسی جس کا نام شگفتہ ہے وہ پہن پہن کر دیکھتی ہے (شگفتہ کچھ عرصے پہلے  بیوہ ہوئی ہے اس کے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں) ۔ امی غصہ میں بھائی کو کہتی ہیں  کہ یہ جوتیاں کسی اور کو نہیں دینی یہ صرف ****(بہن کی بڑی بیٹی ) کو دینی ہیں۔ میں ڈر گیا کہ مہمانوں کو برا نہ لگ جائے مگر امی بدستور سختی سے یہی کہتی رہیں کہ یہ جوتیاں صرف ****کو دینی ہیں۔  بھائی کہتے ہیں کہ میں نے مہمانوں  کو دیکھا تو وہ سب ہنس رہے تھے۔

3) کیا خواب کی تعبیر کے مطابق  امی روزہ و نماز کے فدیہ کی رقم ******کو دینا چاہتی ہیں؟

میری ایک بہن جو کنواری ہے وہ گر گئی تھی اور اس کی ریڑھ کی ہڈی میں مسئلہ بن گیا تھا۔ دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور تین آپریشن ہو چکے ہیں مگر ابھی بھی وہ خود سے نہیں چل سکتی۔ اس پر لاکھوں روپیہ لگ چکا ہے اور مسلسل پیسہ لگ رہا ہے۔ صرف ایک بھائی کا کام کچھ بہتر ہے تو زیادہ تر رقم وہی بہن پر خرچ کرتے ہیں۔ باقی بھائیوں کا کام پورا پورا ہے مگر جتنا ہو سکے سب کوشش کرتے ہیں۔اس کے آپریشن کے لئے بھی بھائی نے اپنی  گاڑی فروخت کی تھی۔

4)  کیا اس کے علاج کے لئے بھی فدیہ کی رقم استعمال کی جا سکتی ہے؟ یا ہم رقم آدھی آدھی دونوں کو دے سکتے ہیں؟

برائے مہربانی مسئلہ کی جلد از جلد وضاحت فرما دیں تا کہ ہم جلد از جلد فدیہ ادا کر سکیں۔

5)  مزید یہ کہ کیا ہم بہن بھائی اپنی زکوۃ یا صدقہ طلاق یافتہ بہن یا ان کے بچوں کو دے سکے ہیں؟ اور جو بہن بیمار ہے اس کے علاج کے لئے اگر کوئی زکوۃ دینا چاہے تو کیا وہ اس کو زکوۃ دے سکتا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1)  مذکورہ رقم  کے بارے میں والدہ کی طرف سے ھبہ کی صراحت نہیں  ہے لہذا یہ رقم وراثت میں شمار کی جائے گی اور  تمام بہن بھائیوں کو بتانا ضروری ہے ۔اس کے بعد تمام ورثاء رضامندی سے  یہ رقم بہن کودینا چاہیں تو   دے سکتے ہیں۔

2)  فدیہ کی رقم اس بہن کو نہیں دے سکتے کیونکہ وہ مستحق زکوۃ نہیں ہیں  البتہ اس بہن  کی بیٹیوں کو دینے کی گنجائش تو ہے لیکن احتیاط کریں تو اچھا ہے۔

3)   خواب کی تعبیر ہمیں معلوم نہیں اور نہ ہی خواب  کوئی شرعی حجت ہے تا ہم فدیہ کی رقم  بڑی بہن کی بڑی بیٹی ****کو دینے کی گنجائش ہے اور اگر احتیاط کریں تو اچھا ہے۔

4)  فدیہ  کی رقم علاج کے لئے  اس دوسری بہن کو دینے  کی گنجائش ہے تا ہم احتیاط کریں تو اچھا ہے۔

5)   طلاق یافتہ بہن مستحق زکوۃ نہیں ہے لہذا انہیں زکوۃ تو ہرگز نہیں دے سکتے باقی نفلی صدقات دے سکتے ہیں لیکن  یہ ذہن میں رہے کہ غیر مستحق کو صدقہ دینے سے صدقہ کا ثواب نہیں ملے گا بلکہ ہدیہ کا ثواب ملے گا۔ باقی طلاق یافتہ بہن کے بچوں اور اسی طرح جو بہن بیمار ہے اسے زکوۃ اور نفلی صدقات دے سکتے ہیں کیونکہ یہ افراد مستحق زکوۃ ہیں۔

نوٹ:(اگرچہ گروی کا طریقہ شرعاً درست نہیں ہے لیکن)  سوال میں ذکر تفصیلات کے مطابق آپ کی بہن نے ساڑھے چار لاکھ (450000)روپے گروی کے لئے  دیے ہیں جن میں دو لاکھ (2،00000) روپے ادھار ہیں  اور بقایا  ان کے اپنے ہیں ۔اس  بقایا ڈھائی لاکھ (2،50،000)روپے  (جو انکے اپنے ملکیتی ہیں )کی وجہ سے وہ مستحق زکوۃ نہیں رہتی لہذا ان کو  زکوۃ کی رقم دینا صحیح نہیں ۔

رد المحتار علی الدر المختار، كتاب الزکاۃ، باب المصرف  (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر3 صفحہ نمبر333) میں ہے:

قال الحصکفی : ای مصرف الزکاة والعشر

قال ابن عابدين: وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني”

رد المحتار علی الدر المختار، كتاب الزکاۃ، باب المصرف  (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر3 صفحہ نمبر357) میں ہے:

"قال ابن عابدين: لأن الصدقة على الغني هبة كما أن الهبة للفقير صدقة لكن فيه أن المراد بالغني من يملك نصابا”

رد المحتار علی الدر المختار، كتاب اذان(طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر2 صفحہ نمبر 60) میں ہے:

"قال ابن عابدين: واستشكل إثباته بالرؤيا بأن رؤيا غير الأنبياء لا ينبني عليها حكم شرعي”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved