• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قربانی  کےجانورکی عمر کنفر م نہ ہو  اور دانت  بھی نہ نکلے ہوں  تو قربانی جائز ہے یانہیں؟

استفتاء

قربانی کا جانورمثلاً گائے    اپنے دانت گرادے اور پھر قربانی کے وقت تک دانت نہ نکالے اور اس کی عمر کا بھی کنفرم نہیں ہے کہ وہ دو سال کا ہے یا نہیں تو ایسے میں کیا حکم ہے قربانی ہوگی یا نہیں؟رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیراً

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

دودھ کے دانت جانور تب گراتا ہے جب ان  دانتوں کے نیچے  دوسرے دانت نکلنے شروع ہوجائیں لہٰذا مذکورہ صورت میں اگر دوسرے دانت  بالکل بھی  ظاہر نہ ہوئے ہوں تو غالب یہ ہے کہ دودھ کے دانت از خود  توڑے گئے ہیں لہذا  ایسے جانور کی قربانی  درست  نہیں ۔

ردالمحتار (3/41 2)میں ہے۔

قوله ( مسن ) بضم الميم وكسر السين مأخوذ من الأسنان وهو طلوع السن في هذه السنة لا الكبر قهستاني عن ابن الأثيرط۔

کفایت المفتی(8/217 ) میں ہے :

قربانی کے لئے جانور کی عمر متعین ہے بکری بکرا ایک سال کا ہو اور گائے دو سال کی چونکہ اکثری حالات میں جانوروں کی صحیح عمر معلوم نہیں ہوتی اس لیے ان کے دانتوں کو عمر معلوم کرنے کااور اس پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے دانتوں کی علامت ایسی ہے کہ اس میں کم عمر کا جانور نہیں آسکتا زیادہ عمر کا جانور آجائے تو ممکن ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے پس اگر کسی شخص کے گھر بکرا  ذی الحجہ کی پہلی تاریخ کو پیدا ہوا اور اسی کے گھر پرورش پاتا رہا تو آئندہ ذی الحجہ کی دس تاریخ کو وہ ایک سال نو دن کا ہوگا اب اگر اس کے دانت نہ نکلے ہوں تب بھی وہ اس کی قربانی کر سکتا ہے کیونکہ اس کی عمر پورا ایک سال کی پوری ہوگئی لیکن وہ یہ حکم نہیں دے سکتا کہ بے دانت کا ہرقربانی کیا جا سکتا ہے خواہ اس کی عمر کا یقین ہو یا نہ ہو بس میرے خیال میں یہ بات صحیح ہے کہ مسنۃ کے معنی دانت والے اور سال بھر والے دونوں ہوسکتے ہیں لیکن سال بھر کا ہونا کسی بکرے کا جس کی تاریخ معلوم نہ ہو یا مشتبہ ہو بغیر دو دانتوں کے معلوم نہیں ہو سکتا اس لئے عام حکم یہی دینا نا مناسب تھا۔

امدادالفتاویٰ(3/612) میں ہے:

تفسیر معتبر ومدار حکم عمر خاص ہی کے ساتھ ہے، مگر چونکہ اس عمر خاص میں اکثر دانت بھی طلوع ہوجاتے ہیں  اس لئے اہل لغت طلوع سن سے تفسیر کردیتے ہیں ورنہ دانت نکلنے پر مدار حکم نہیں ہے، شیخ موصوف ہی نے بعد دعویٰ اتحاد مسنہ وثنیہ کے لکھا ہے: وهومن الإبل ما استکمل خمس سنین وطعن في السادسة، ومن البقر ما استکمل سنتین، ومن الغنم ضأنا کان أو معزا ما استکمل سنة، هكذا في الهداية۔ چنانچہ بعض اوقات خود اہل لغت بھی عمر ہی کے ساتھ تفسیر کر دیتے ہیں ، چنانچہ تلخیص النہایہ میں ہے کہ: والمسن من البقر مادخل في السنة الثالثة اھ۔ (ج۲ ص۲۰۳ )۔اور اس سے یہ تو ہم نہ کیا جاوے کہ سن بعمر لیا گیا ہے، سن تو بمعنی دندان ہے لیکن طلوع دندان چونکہ عادۃً اس عمر میں ہوتا ہے اس لئے عمر کے ساتھ تفسیر کردی خواہ دانت طلوع ہو یا نہ ہو، اور جب کہ فقہاء تصریح کرتے ہیں کہ اکثر دانتوں کا ہونا یا اتنے دانتوں کا ہونا جس سے گھاس کھا سکے جواز تضحیہ کے لئے کافی ہے، تو کسی خاص دانت کے نکلنے پر کیسے مدار ہوگا؟  في الدرالمختار: ولا بالهتماء التي لا اسنان لها، ویکفی بقاء الأکثر وقیل: ماتعتلف به.

مسائل بہشتی زیور(1/468)میں ہے :

تنبیہ: بکری جب پورے ایک سال کی ہو جاتی ہے اور گائے جب پورے دو سال کی ہو جاتی ہے اور اونٹنی جب پورے پانچ سال کی ہو جاتی ہے تو اس کے نچلے جبڑے کے دودھ کے دانتوں میں سے سامنے کے دو دانت گر کر دو بڑے دانت نکل آتے ہیں ۔ نر اور مادہ دونوں کا یہی ضابطہ ہے۔ تو وہ دو بڑے دانتوں کی موجودگی جانور کے قربانی کے لائق ہونے کی اہم علامت ہے لیکن اصل یہی ہے کہ جانور اتنی عمر کا ہو اس لیے اگر کسی نے خود بکری پالی ہو اور وہ چاند کے اعتبار سے ایک سال کی ہوگئی ہو لیکن اس کے دو دانت ابھی نہ نکلے ہوں تو اس کی قربانی درست ہے۔ لیکن محض عام بیچنے والوں کے قول پر کہ یہ جانور پوری عمر کا ہے اعتماد نہیں کر لینا چاہیے اور دانتوں کی مذکورہ علامت کو ضرور دیکھ لینا چاہیے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved