- فتوی نمبر: 33-238
- تاریخ: 28 جون 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > میاں بیوی کا طلاق میں اختلاف
استفتاء
شوہر کا بیان:
میں اللہ کو حاضرو ناظر جان کر جو بات بھی کہوں گا سچ کہوں گا۔ میری اپنی بیوی کے ساتھ تلخ کلامی ہو رہی تھی تو میں نے اسے کہا کہ چپ کر جاؤ نہیں تو “میں آپ کو طلاق دے دوں گا” لیکن میری بیوی چپ نہ ہوئی بہت زیادہ بحث کر رہی تھی میں نے اسے کہا چپ کر جاؤ شیطان ہم دونوں پر غالب ہو رہا ہے وہ چپ نہیں ہورہی تھی، پھر میں نے بھی غصے میں اسے بہت بولا وہ غصے میں گھر سے باہر جانے لگی میں نے دور سے کھڑے ہو کر کہا کہ “گھر سے باہر قدم نہیں رکھنا نہیں تو اچھی بات نہیں ہوگی” اس نے میری نہیں سنی اور باہر نکل گئی ،میں بھاگ کر پیچھے گیا ااور اس کو اٹھا کر اندر لایا اور اس کو کہا کہ “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ طلاق دے دوں گا ،طلاق دے دوں گا، طلاق دے دوں گا”
بیوی کا بیان:
میں اللہ پاک کو حاضر و ناظر جان کر سچ کہتی ہوں کہ میرے شوہر اویس نے کلمہ طیبہ پڑھ کر طلاق، طلاق ،طلاق کے الفاظ کہے ۔مجھے 110 فیصد یقین ہے کہ شوہر نے بس یہی لفظ بولے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر کے بیان کے مطابق کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ شوہر کے بیان کے مطابق اس نے فی الحال کوئی طلاق نہیں دی بلکہ “طلاق دے دوں گا” کا جملہ تین دفعہ کہہ کر مستقبل میں طلاق دینے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن بیوی کے بیان کے مطابق بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوگئی ہے اور بیوی چونکہ اپنی ذات کی حد تک اپنے بیان پر عمل کی پابند ہے لہذا بیوی کے لیے اب صلح یا رجوع کرنے کی گنجائش نہیں۔
توجیہ: طلاق کے معاملے میں عورت کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے لہذا اگر وہ شوہر کا طلاق دینا خود سن لے یا اسے کسی معتبر ذریعے سے شوہر کے طلاق دینے کا علم ہو جائے تو اس کے لیے اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مذکورہ صورت میں بیوی کے بیان کے مطابق چونکہ شوہر نے طلاق کا لفظ تین دفعہ کہا ہے جن سے بیوی کے حق میں تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔ نیز بیوی کے بیان کے مطابق اگرچہ شوہر نے صراحتاً بیوی کا نام نہیں لیا اور نہ اضافت کی لیکن چونکہ شوہر اپنی بیوی سے مخاطب تھا جو نسبت اور اضافت کا قرینہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر کا ان الفاظ سے اپنی بیوی کو طلاق دینا ہی مقصود ہے لہذا مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں تینوں طلاق واقع ہو چکی ہیں اور تین طلاقوں کے بعد صلح یا رجوع کی گنجائش نہیں ہوتی۔
ردالمحتار(4/449)میں ہے:
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه.
فتاویٰ شامی (4 /444 ) میں ہے:
ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه لما في البحر لو قال: طالق، فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته اه.۔۔۔۔۔ ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اه. ويفهم منه أنه لو يقل ذلك تطلق امرأته، لان العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها لأنه يحتمله كلامه،۔۔۔۔وسيذكر قريبا أن من الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام، فيقع بلا نية للعرف الخ، فأوقعوا به الطلاق مع أنه ليس فيه إضافة الطلاق إليها صريحا، فهذا مؤيد لما في القنية، وظاهره أنه لا يصدق في أنه لم يرد امرأته للعرف
ہندیہ (1/384) میں ہے:
فقال الزوج: طلاق میکنم طلاق میکنم وکرر ثلاثا طلقت ثلاثا بخلاف قوله: كنم (سأطلق) لأنه استقبال فلم يكن تحقيقا بالتشكيك. وفي المحىط لو قال بالعربىة أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا.
فقہ اسلامی (ص:133) میں ہے:
عورت نے شوہر کو خود تین طلاقیں دیتے سنا، بعد میں شوہر مکر جائے اور عورت کے پاس گواہ بھی نہ ہوں تو عورت اگر سچی ہو تو وہ شوہر کے ساتھ نہ رہے بلکہ اگر ہوسکے تو شوہر کو کچھ مال دے کر خلاصی حاصل کرلے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved