• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصے میں تین طلاق دینے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ یکم ستمبر 2018 کو میرے شوہر کو فالج ہوا تھا، میرے شوہر میں غصہ بہت ہے، کسی بات کا پیچھا نہیں چھوڑتے،  بار بار ایک ہی بات بولتے رہتے ہیں، سمجھانے کی کوشش کریں تو کوئی بات نہیں سمجھتے، رات کو انہوں نے مجھے طلاق دی ہے، کوئی لڑائی نہیں ہوئی تھی، وہ ٹی وی دیکھ رہے تھے اور وہیں میری بیٹی اپنا یونیورسٹی کا کام کر رہی تھی، بیٹی نے کہا کہ جب آپ کا ڈرامہ لگے گا میں کام بند کردوں گی، لیکن وہ نہیں مانے اور غصے میں مجھے کہا کہ ’’آمنہ میں تجھے طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں‘‘ یہ الفاظ سننے کے بعد میں وہاں سے چلی گئی، اور میں نماز پڑھنے لگ گئی، پھر  یہ مجھے واش روم لے جانے کے لیے آواز دینے لگے، میں نے جا کر کہا کہ آپ کو پتہ ہے کہ آپ نے کیا کہا تھا؟ تو آگے سے جوابا انہوں نے کہا ہاں مجھے پتا ہے اور دوبارہ کہنے لگے کہ ’’میں تجھے طلاق دیتا ہوں، تو بڑی بےغیرت عورت ہے جو یہاں ٹھہری ہوئی ہے، تو گندی عورت ہے، اچھی عورت نہیں ہے‘‘ یہ سارا واقعہ میں نے اپنے بیٹے کو نہیں بتایا، جب اس کو معلوم ہوا تو وہ ان سے بات کرنے گیا تب بھی انہوں نے کہا کہ ’’میں نے اسے طلاق دی‘‘ کافی دیر  میرے بیٹے نے انہیں سمجھایا، پھر میرے بیٹے نے پوچھا کہ آپ کو کوئی افسوس ہے؟ تو کہتے ہیں ہاں  افسوس توہے۔ میرے شوہر فالج کی وجہ سے جسمانی طور پر معذور ہیں اور وہیل چیئر پر ہیں، لیکن دماغی طور پر بالکل ٹھیک ہیں، غصے کے تیز ہیں، اور ان میں چڑچڑاپن بہت ہے، غصے میں کوئی خلاف عادت کام نہیں کیا تھا۔کیا مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہو گئی ہے؟

نوٹ: شوہر سے فون پر بات ہوئی تو اس نے بیوی کے بیان کی تصدیق کی اور کہا کہ میری طلاق کی نیت نہیں تھی غصے میں الفاظ منہ سے نکل گئے، اور غصے میں کوئی خلاف عادت کام نہیں کیا۔ (رابطہ کنندہ: محمد سلیمان)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  اگرچہ شوہر نے غصے کی حالت میں طلاق دی ہے، لیکن غصے کی کیفیت ایسی نہیں تھی کہ  اسے معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے، اور نہ ہی غصے میں شوہر سے خلاف عادت کوئی قول یا فعل سرزد ہوا،  غصہ کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے، لہذا مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں، جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے،  اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے

فتاوی شامی (4/439) میں ہے:

قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله. الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة تدل علی عدم نفوذ أقواله …………….فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن ادراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.

درمختار مع ردالمحتار (4/509) میں ہے:

كرر لفظ الطلاق وقع الكل.

(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved