• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بلڈ پریشر کے مریض کا شدید غصہ میں تین طلاقیں دینے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

ہم دونوں میاں بیوی میں خرچ کے معاملے میں لڑائی ہوئی۔ بقول  میری بیوی، میں نے شدید غصہ میں آکر تین مرتبہ ایک ہی سانس میں کہا ’’طلاق دیتا ہوں‘‘ جبکہ میری بہن  (جو وہاں موجود تھی) کا کہنا ہے کہ الفاظ یہ تھے ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘۔  مجھے تین، چار سال سے بلڈ پریشر بڑھنے کا مسئلہ ہے، میرا بلڈ پریشر بہت ہائی ہوجاتا ہے۔ اس دوران بھی بلڈ پریشر ہائی تھا اور میں ہوش میں نہیں تھا، اور میں حلفا کہتا ہوں کہ مجھے الفاظِ طلاق کا کچھ علم نہیں، میری بہن نے مجھے دھکا دیا اور کہا کہ یہ آپ نے کیا بول دیا ہے؟ میں نے پوچھا کہ کیا بولا ہے؟ پھر اس نے بتایا کہ آپ نے اس طرح تین دفعہ طلاق کے الفاظ بولے ہیں۔ مجھ سے اس لڑائی کے دوران برتن بھی ٹوٹے ہیں جن میں تین گلاس اور ایک پلیٹ شامل ہے۔ میں نے بیوی پر ہاتھ بھی اٹھایا تھا اور پستول بھی نکال لی تھی۔  براہِ مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں اس کا جواب بتادیں۔

شوہر کی بہن کا بیان:

ساری صورتحال ایسے ہی ہے جیسے بھائی نے بیان کی ہے۔

لڑکی کے بھائی (نوید) کا بیان:

لڑائی تو پہلے سے چل رہی تھی، میرے آنے کے بعد لڑائی کے دوران شوہر نے غصے میں آکر طلاق کے الفاظ بولے کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، طلاق، طلاق، طلاق‘‘ پستول بھی نکالی تھی۔ برتن توڑنے والی بات کا مجھے نہیں پتہ، میں نے یہ نہیں دیکھا۔

نوٹ: بیوی کا مؤقف معلوم کرنے کے لیے بیوی کے بھائی کو دارالافتاء سے کال  کی گئی تو اس نے کہا کہ بہن  سے بات نہیں ہوسکتی۔

سائل: محمد آصف (شوہر)۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً طلاق کے الفاظ بولتے وقت شوہر اپنے ہوش وحواس میں نہیں تھا یعنی اسے طلاق کے الفاظ بولتے وقت کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور اس موقع پر اس سے برتن بھی ٹوٹے ہیں تو ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

در مختار مع رد المحتار(439/4) میں ہے:

وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.

الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. اه……………

(وبعد اسطر) فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved