• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زمین کی بیع کی مروجہ صورتوں کا حکم

استفتاء

1۔ایک شخص کے پاس دس مربع زمین ہے ۔اس نے اس کو پلاٹنگ کے ذریعے بیچنے کا ارادہ کیا اور پانچ مرلے کے کئی پلاٹ اپنے ذہن میں سوچ کر گن لیے کہ اتنے پلاٹ بنیں گے اور فائلیں بنا بنا کر بیچنا شروع کر                                  دیں ۔لینے والے کے سامنے دس مربع  زمین ہے، اس کو نہیں پتا کہ میں کس پلاٹ کے پیسے دے رہا ہوں ۔اسی طرح چار سال تک وہ فائلیں  نفع کے ساتھ ، ہاتھ در ہاتھ بکتی  رہتی ہیں ،ہر خریدنے والا نفع کی خاطر خرید کر آگے فروخت  کردیتا ہے۔ کسی کو معلوم  ہی نہیں ہوتا  کہ پلاٹ کدھر ہے۔ اس صورت کا کیا حکم ہے؟

2۔ چار سال  تک  جنہوں نے قسطیں دی ہوتی ہیں ان کے نام قرعہ اندازی میں ڈالے جاتے ہیں پھر بندے کی قسمت کہ اچھی اور پسند کی لوکیشن پر پلاٹ ملے یہ ناپسند لوکیشن پر، بہر کیف وہ لینا پڑتا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا                                                           قر عہ اندازی کے ذریعے بیع  کرنا شرعاً جائز ہے ؟ جب کہ  کسی کو مبیع کے اوصاف تک  معلوم نہیں۔ فرض کریں  اگر سب پلا ٹ ایک لائن میں روڈ کے ساتھ ہیں، کمرشل ہیں،  آباد جگہ پر ہیں تو اس صورت میں قر عہ اندازی کے ذریعے پلاٹ کا کیا  حکم ہوگا؟

3۔ قسطوں کی تکمیل تک پلاٹ پر مشتری کو کسی قسم کا قبضہ نہ دینا ،حوالے نہ کرنا، تعمیر  کی اجازت نہ دینا یہ شریعت میں کیسا ہے؟  کیا یہ حبس المبیع نہیں ہوگا؟

4۔ فائل فروخت کرنے والوں میں سے کوئی بھی اس فائل پر لکھے گئے پانچ مرلے زمین کو حوالے  کرنے پر قادر نہیں ہوتا ،کیا یہ غیر مقدور التسلیم کی بیع نہیں ہوگی ؟ برائے مہربانی جواب عنایت فرماکر    رہنمائی فرمادیجئے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت  جائز  ہے اور یہ متعین  پلاٹ کی خرید وفروخت  نہیں کہلائے گی بلکہ اس زمین میں سے مشاع  (فیصدی حصے)کی خرید و فروخت  شمار ہوگی جس کی تقسیم وتعیین  قرعہ  اندازی کے ذریعہ کردی جائے گی  اور اس قرعہ اندازی پر عرفاً  لوگوں کی رضامندی بھی ہوتی ہے اس لیے اس خرید وفروخت اور اس تقسیم میں کوئی بات خلاف شرع نہیں ۔

2۔  مذکورہ صورت میں  قر عہ اندازی کا تعلق  بیع کے ساتھ نہیں  ہوتا کہ جس کی وجہ سے یہ سوال پیدا ہو کہ قرعہ اندازی کے ذریعہ بیع کرنا شرعا جائز ہے یا نہیں ؟ بلکہ بیع تو مشاع حصے کی پہلے  ہوچکی ہوتی ہے البتہ قرعہ اندازی  کے ذریعے ہر خریدار کے مشاع حصے کی تقسیم و              تعیین کی جاتی ہے جس پر شرکاء  عرفاً رضامند  ہوتے ہیں  یہ الگ بات ہے کہ  اگر اچھی لوکیشن پر پلاٹ  نکل آئے  تو یہ مزید خوشی کا باعث ہوتا ہے ۔

3۔مذکورہ صورت حبس المبیع  لاستیفاء الثمن کی  ہے اوراگرچہ ادھار بیع میں بائع کو حبس  المبیع کا اختیار نہیں ہوتا اس لیے عقد میں اس کی شرط لگانا اصلا مفسد عقد ہے لیکن چونکہ  آج کل  فائلوں کی خرید وفروخت میں اس کا عرف ہے، لہذا عرف کی  وجہ سے یہ  شرط جائز ہوگی اور اس کی وجہ سے عقد فاسد نہ ہوگا ۔

4۔  ۔  مذکورہ صورت  غیر مقدور التسلیم کی بیع نہ ہوگی کیونکہ مذکورہ صورت میں اگرچہ عقد کے وقت حقیقتاً قدرت علی التسلیم  نہیں ہوتی لیکن حکماً قدرت علی التسلیم ہوتی ہے یعنی جس وقت قسطیں  پوری ہوجائیں گی اس وقت قدرت علی التسلیم حاصل ہے جبکہ غیر مقدور التسلیم کی وہ صورت ممنوع ہے جس میں مبیع کی حوالگی موہوم ہو۔ جیساکہ بدائع اور شامی کے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے۔

بدائع الصنائع (4/339) میں ہے:

(ومنها) أن يكون مملوكا لأن البيع تمليك فلا ينعقد ‌فيما ‌ليس ‌بمملوك

فتاوی شامی(7/70) میں ہے:

(وفسد ‌بيع ‌عشرة ‌أذرع من مائة ذراع من دار) أو حمام وصححاه، وإن لم يسم جملتها على الصحيح لان إزالتها بيده

دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام(المادۃ: 253) میں ہے:

للمشتري  ان يبيع المبيع  لأخر قبل قبضه ان كان عقارا

بدائع الصنائع (4/341) میں ہے:

بخلاف بيع المغصوب من غير الغاصب أنه ينعقد موقوفا على التسليم حتى لو سلم ينفذ، ولأن هناك المالك ‌قادر ‌على ‌التسليم بقدرة السلطان والقاضي وجماعة المسلمين إلا أنه ينفذ للحال لقيام يد الغاصب صورة فإذا سلم زال المانع فينفذ

شامی (7/250) میں ہے :

( و ) بيع ( طير في الهواء لا يرجع ) بعد إرساله من يده أما قبل صيده فباطل أصلا لعدم الملك ( وإن ) كان ( يطير ويرجع ) كالحمام ( صح ) وقيل لا ورجحه في النهر

  (قوله صح) ذكره في الهداية والخانية، وكذا في الذخيرة عن المنتقى بحر. قال في الفتح؛ لأن المعلوم عادة كالواقع، وتجويز كونها لا تعود أو عروض عدم عودها لا يمنع جواز البيع كتجويز هلاك المبيع قبل القبض، ثم إذا عرض الهلاك انفسخ، كذا هنا إذا فرض وقوع عدم المعتاد من عودها قبل القبض انفسخ اهـ (قوله وقيل لا) في البحر والشرنبلالية أنه ظاهر الرواية (قوله ورجحه في النهر) حيث ذكر ما مر عن الفتح ثم قال: وأقول فيه نظر؛ لأن من شروط صحة البيع: القدرة على التسليم عقبه ولذا لم يجز بيع الآبق اهـ قال ح: أقول: فرق ما بين الحمام الآبق فإن العادة لم تقض بعوده غالبا، بخلاف الحمام، وما ادعاه من اشتراط القدرة على التسليم عقبه، إن أراد به القدرة حقيقة فهو ممنوع وإلا لاشتراط حضور المبيع مجلس العقد وأحد لا يقول به، وإن أراد به القدرة حكما كما ذكره بعد هذا، فما نحن فيه كذلك لحكم العادة بعودة  قلت: وهو وجيه، فهو نظير العبد المرسل في حاجة المولى فإنه يجوز بيعه، وعللوه بأنه مقدور التسليم وقت العقد حكما إذ الظاهر عوده،

المجلۃ       (مادة 188) وشرح المجلۃ  (2/61،62) میں ہے:

البيع بشرط متعارف يعني الشرط المرعى في عرف البلدة صحيح والشرط معتبر مثلا لو باع الفروة على أن يخيط بها الظهارة أو القفل على أن يسمره في الباب أو الثوب على أن يرقعه يصح البيع ويلزم علی البائع الوفاء بهذه الشروط

وقال الاتاسي: اي وان كان لايقتضيه العقد ولا يلائمه وافادت هذه المجلة انه يعتبر العرف الخاص الحادث قال في رد المحتار: ومقتضي هذا انه لو حدث عرف في شرط غير الشرط في النعل والثوب والقبقاب ان يكون معتبرا اذا لم يؤد الي المنازعة. وانظر ما حررناه في رسالتنا المسماة نشر العرف في بناء بعض الاحكام علي العرف وحاصل ما حققه في تلك الرسالة ان العرف الخاص معتبر وان خالف المنصوص عليه في كتب المذهب ما لم يخالف النص الشرعي يعني الكتاب والسنة والاجماع وان العرف الخاص يشمل القديم والحادث، وان حكم العرف يثبت علي اهله خاصا او عاما فالعرف العام في سائر البلاد يثبت حكمه علي اهل سائر البلاد والعرف الخاص في بلدة واحدة يثبت حكمه علي اهل تلك البلدة وانه انما يعتبر العرف سواء كان خاصا او عاما اذا كان شائعا بين اهله مستفيضا لديهم يعرفه جميعهم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمثيل المجلة بهذه الامثلة يدل علي ما تقدم من اعتبار العرف الخاص الحادث لان كون هذه الشروط من الشروط التي جري العرف بها لم يذكر في كتب الفقهاء فدل علي ان التعارف بها حادث ولان التعارف بها ليس بعام في جميع البلاد فان بيع الفروة علي ان يخيط بها الظهارة او القفل علي ان يسمره في الباب لم يتعارف عندنا اصلا فدل انه خاص في بعض البلاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved