- فتوی نمبر: 31-86
- تاریخ: 07 جولائی 2025
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان > مشترکہ خاندانی نظام
استفتاء
السلام علیکم مفتی صاحب ہم تین بھائی ہیں ہم دو نے کاروبار شروع کیا پھر تیسرا بھائی 2016 ء میں کاروبار میں شامل ہو گیا۔ ہم دو بھائیوں نے اس کاروبار سے 2016 ء سے پہلے ایک پراپرٹی خریدی تھی ۔ پوچھنا یہ ہے کہ تیسرا بھائی جو 2016 ءسے آیا ہے کیا وہ اس پراپرٹی میں حقدار ہے جبکہ وہ منہ سے تقاضا بھی نہیں کر رہا ؟رہنمائی فرمائیں ۔
تنقیح : ہمارے والد صاحب نے دکان بنا کر دی تھی میں اس وقت سب سے بڑا تھا تو مجھے دکان پر بٹھا دیا اس کے بعد دوسرا بھائی بھی شامل ہو گیا اور اب 2016 کے بعد تیسرا بھائی بھی دکان پر آگیا ۔ دکان پر بٹھاتے وقت مجھے یہ دکان گفٹ کرنے کی بھی کوئی بات نہیں کی گئی تھی ۔ ہمارے والد صاحب الحمدللہ بقید حیات ہیں ۔ہمارے گھر کا نظام بھی ابھی تک مشترکہ ہے اب ہم اپنے پورشن الگ کرنا چاہتے ہیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونكہ وہ کاروبار والد صاحب کی طرف سے بڑے بیٹے کے نام نہیں کیا گیا تھا لہٰذا یہ کاروبار اصلاً والد کا شمار ہوگا اور بیٹے ان کے معاون شمار ہوں گے اور وہ پراپرٹی بھی والد کی ہی شمار ہوگی کسی خاص بیٹے کی کی شمار نہیں ہوگی البتہ بیٹے اپنے کام کی وجہ سے اجرت ِ مثل کے مستحق ہوں گے یعنی اس طرح کے کام کے لیے اگر کوئی بندہ باہر سے رکھا جاتا تو اس کو جتنی اجرت ملتی اتنی اجرت لینے کے وہ مستحق ہوں گے نیز کام کے دوران کام کرنے والے بیٹے اپنے خرچے کے لیے جو رقم لیتے رہے ہیں تو وہ رقم اجرت مثل میں سے منہا کی جائے گی۔
فتاوی شامی (4/ 325) میں ہے :
«مطلب: اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية [تنبيه] يؤخذ من هذا ما أفتى به في الخيرية في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ كل منهما يكتسب على حدة ويجمعان كسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز.
فأجاب بأنه بينهما سوية، وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي
شرح المجلہ لخالد الاتاسی المادہ 1398 میں ہے :
المادة 1398 – إذا عمل شخص في صنعة هو وابنه الذي في عياله فجميع الكسب لذلك الشخص وولده يعد معيناً له كما إذا أعان شخصاً ولده الذي في عياله حال غرسه شجرة فتلك الشجرة للشخص ولايكون ولده مشاركاً له فيها
امداد الفتاوی ( 3/ 515) میں ہے :
ایک استفتاآیا ہے جس کا جواب یہ سمجھ میں آتا ہے لیکن دو متضاد روایت قیل قیل کرکے لکھا ہے کس کو ترجیح دی جاوے۔شامي فاروقي ص:۳۴۹، فصل في الشركة الفاسدة (تنبيه) یؤخذ من هذا ما أفتی به في الخیرية: في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ کل منهما یکتسب علی حدة ویجمعان کسهما، ولا یعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمیز، فأجاب بأنه بنهما سوية الخ۔ چند سطر کے بعد لکھا ہے: فقیل: هي للزوج وتکون المرأة معینة له إلا إذا کان لها کسبًا علی حدة فهو لها وقیل: بيمها نصفان ؟
الجواب: میرے نزدیک ان دونوں روایتوں میں تضاد نہیں ، وجہ جمع یہ ہے کہ حالات مختلف ہوتے ہیں جن کی تعیین کبھی تصریح سے کبھی قرائن سے ہوتی ہے، یعنی کبھی تو مراد اصل کا سب ہوتا ہے اور عورت کے متعلق عرفاً کسب ہوتا ہی نہیں وہاں تو اس کو معین سمجھا جاوے گا اور کہیں گھر کے سب آدمی اپنے اپنے لئے کسب کرتے ہیں ، جیسا اکثر بڑے شہروں میں مثل دہلی وغیرہ کے دیکھا جاتا ہے وہاں دونوں کو کاسب قرار دے کر عدم امتیاز مقدار کے وقت علی السویہ نصف نصف کا مالک سمجھا جاوے گا۔ واللہ اعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved