- فتوی نمبر: 31-95
- تاریخ: 07 جولائی 2025
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت > گناہ کے کاموں میں استعمال ہونے والی اشیاء کی خرید و فروخت
استفتاء
السلام علیکم ! مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ میں کولڈ ڈرنک کی دکان پر کام کرتا ہوں وہاں پر سردی میں جو بوتلیں ایکسپائر ہوجاتی ہیں ان کی ایکسپائر ی تاریخ مٹاکر مشین کے ذریعے دوسری تاریخ لگائی جاتی ہے تو یہ کام دکان کے مالک نے میرے ذمے لگایا ہے تو کیا یہ گناہ کا کا م ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں ایکسپائری تاریخ کو مٹاکر دوسری تاریخ لگاکر بوتل فروخت کرنے میں عیب کو چھپانے کے ساتھ ساتھ خریدار کو دھوکہ دینے کا گناہ بھی ہے۔ البتہ اگر مندرجہ ذیل شرائط کا خیال رکھ کر ایسی بوتل کو فروخت کیا جائے تو ایسا کرنا جائز ہے :
1۔ایکسپائری تاریخ کے بعد وہ بوتل مضر ِ صحت نہ ہوگئی ہو ۔
2۔ایکسپائر ہونے کے باوجود اس بوتل سے جو فائدہ مقصود ہوتا ہے وہ فائدہ اس بوتل میں یا تو مکمل طور پر موجود ہو یا مکمل کے قریب قریب ہو ۔
3۔ خریدار نے اگر بوتل خود استعمال کرنی ہو تو اسے یہ معلوم ہو کہ یہ ایکسپائر ہے اور اگر خریدار نے آگے فروخت کرنی ہو تو جس خریدار کے بارے میں آپ کو غالب گمان ہو کہ وہ اگلے خریدار کو بتائے بغیر بیچے گا تو اسے بیچنا جائز نہیں ہے اور جس کے متعلق غالب گمان نہ ہو بلکہ محض شک یا وہم ہو کہ وہ اگلے خریدار کو نہیں بتائے گا تو اسے بیچنا جائز ہے ۔
صحیح مسلم ( رقم الحدیث : 106 ) میں ہے :
عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام. فأدخل يده فيها. فنالت أصابعه بللا. فقال “ما هذا يا صاحب الطعام؟ ” قال: أصابته السماء. يا رسول الله! قال ” أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس؟ من غش فليس مني”
المستدرک علی الصحیحین للاما م الحاکم (رقم الحدیث : 2152 ) میں ہے :
عن عقبة بن عامر الجهني، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «المسلم أخو المسلم، ولا يحل لمسلم إن باع من أخيه بيعا فيه عيب أن لا يبينه له» هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه “
فتاوی شامی (5/ 47) میں ہے :
لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام
«قوله؛ لأن الغش حرام) ذكر في البحر أو الباب بعد ذلك عن البزازية عن الفتاوى: إذا باع سلعة معيبة، عليه البيان وإن لم يبين قال بعض مشايخنا يفسق وترد شهادته، قال الصدر لا نأخذ به. اهـ. قال في النهر: أي لا نأخذ بكونه يفسق بمجرد هذا؛ لأنه صغيرة. اهـ
قلت: وفيه نظر؛ لأن الغش من أكل أموال الناس بالباطل فكيف يكون صغيرة، بل الظاهر في تعليل كلام الصدر أن فعل ذلك مرة بلا إعلان لا يصير به مردود الشهادة، وإن كان كبيرة كما في شرب المسكر»
تبیین الحقائق شرح كنز الدقائق (3/ 296) میں ہے :
«وكره بيع السلاح من أهل الفتنة) لأنه إعانة على المعصية قال الله تعالى {وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان} [المائدة: 2] ولأن الواجب قلع سلاحهم بما أمكن حتى لا يستعملوه في الفتنة فالمنع أولى قال رحمه الله (وإن لم يدر أنه منهم لا) أي لم يدر أنه من أهل الفتنة لا يكره البيع له لأن الغلبة في دار الإسلام لأهل الصلاح وعلى الغالب تبنى الأحكام دون النادر …..
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved