• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ہمبستری کے متعلق مختلف سوالات

استفتاء

آپ نے جو تفصیل بھیجی ہے اس میں سے   آپ کے سوالات کا خلاصہ  درج ذیل ہے:

1۔ کیا میاں بیوی کا ایک دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھنا جائز ہے؟

2۔ کیا  میاں بیوی کا ایک دوسرے کی شرم گاہ کو چھونا جائز ہے؟

3۔ کیا  میاں بیوی کا ایک دوسرے کی شرم گاہ کو بوسہ دینا  یا منہ میں لینا  جائز  ہے؟

4۔ اگر مذکورہ امور  خاوند کو  پسند ہوں اور بیوی کو ناپسند  ہوں تو عورت   پر شوہر کی بات ماننا کتنا ضروری ہے؟

5۔ کیا عورت  خاوند کو اپنی نا پسندیدہ بات سے منع کرسکتی ہے ؟

6۔ منع کرنے پر خاوند کہتا ہے کہ مجھے تم سے سکون نہیں مل رہا  ، اس لیے  تم قرآن کی  آیت ” لتسکنوا اليها”  کے خلاف کر رہی ہو۔ کیا خاوند کا استدلال  درست  ہے؟

7۔ عورت کو حق مہر کس لیے دیا جاتا ہے ؟ کیا حق مہر دینے کے بعد عورت کو کسی کام سے منع کرنے کا اختیار  نہیں رہتا؟

8۔ بیوی سے فائدہ اٹھانے  کا مطلب  کیا ہے؟ کیا مذکورہ گندے کام بھی  اس میں شامل ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔میاں بیوی کا ایک دوسرے کی شرم گاہ کو دیکھنا شرعاً  جائز تو ہے ، لیکن نہ دیکھنا اچھا  ہے ، کیونکہ آپ ﷺ  نے اسے اختیار نہیں کیا ۔

2۔ جائز ہے۔

3۔ منہ اللہ کا ذکر کرنے اور قرآن  کی تلاوت  کرنے کا آلہ ہے۔ اس کو  اس کام  میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ جبکہ اس صورت  میں  منہ میں  نجاست  جانے  کا اندیشہ بھی ہے۔ نیز  اس فعل میں  حیوانوں کے ساتھ  مشابہت  بھی ہے۔

4۔دیکھنا اور ہاتھ سے چھونا  چونکہ شرعاً  منع نہیں ہیں   اس لیے بیوی کو شوہر کے اصرار  پر اس کو  منع نہیں کرنا چاہیئے۔ جبکہ شرمگاہ کو   بوسہ دینا یا منہ میں لینا  چونکہ شرعاً  جائز نہیں ہے اس لیے اس سے روک سکتی ہے۔

5۔ جو بات عورت کو صرف طبعاً  ناپسند ہو اور شرعاً وہ جائز ہو  تو عورت  اس سے خاوند کو  شرعاً  منع نہیں  کرسکتی البتہ شوہر  کو بھی  بیوی  کی پسند ، ناپسند کا خیال رکھنا  چاہئے اور  دونوں  کو اپنی بات پر اصرار نہ کرنا چاہئے۔

6۔ خاوند کا مذکورہ  آیت سے استدلال درست نہیں ہے، شہوانی تسکین  کی بھی حدود متعین  ہیں کل کو کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے تسکین غلط راستے سے خواہش پوری کرنے میں ملتی ہے تو ظاہر ہے کہ اسے اس کی اجازت نہیں دی  جاسکتی۔

7۔ عورت کو مہر اس لیے دیا جاتا  ہے تاکہ مرد کو احساس رہے کہ عورت کوئی گری پڑی بے قیمت چیز نہیں ہے۔ مہر لینے کے بعد بھی عورت  کو ہر ناجائز  کام سے  خاوند  کو روکنے کا اختیار رہتا ہے۔

8۔  بیوی سے فائدہ اٹھانے کا مطلب جائز کاموں میں فائدہ اٹھانا ہے نہ کہ ناجائز کاموں میں بھی فائدہ اٹھانا لہٰذا مذکورہ بالا  کاموں میں سے جو ناجائز ہیں  وہ  چونکہ اللہ تعالیٰ  کی طرف سے ناجائز ہیں  اس لیے وہ بیوی  سے فائدہ اٹھانے کے زمرے میں شامل نہیں ہیں (البتہ جو کام جائز ہیں وہ اس میں شامل ہیں )۔

فتاوی شامی(6/366) میں ہے:

(ومن عرسه وأمته الحلال) له وطؤها ….(إلى فرجها) بشهوة وغيرها والأولى تركه

وفی الشامية: (قوله ومن عرسه وأمته) فينظر الرجل منهما وبالعكس إلى جميع البدن من الفرق إلى القدم ولو عن شهوة، لأن النظر دون الوطء الحلال قهستاني (قول الحلال) جعله في المنح قيدا للأمة كما في الهداية، والأولى جعله قيدا للعرس أيضا لما في القهستاني لا ينظر إلى فرج المظاهر منها على ما قاله أبو حنيفة وأبو يوسف، وينظر إلى الشعر والظهر والصدر منها كما في قاضي خان اهـ

فتح القدير(10/31) میں ہے:

ولا شك أن تجرد كل واحد منهما بين يدي صاحبه يدل على جواز ذلك فإن التجرد سبب لرؤية العورة عادة، فلو لم يكن النظر إليها ‌مباحا ‌للزوج لما وقع التجرد منهما للقطع بتحرز النبي – صلى الله عليه وسلم – عن مظان الحرمة ثم إن مجرد جواز النظر إلى فرج الزوج لا ينافي عدم وقوعه منهما تأدبا على مقتضى مكارم الأخلاق. فلا تدافع بين حديثي عائشة أصلا

المبسوط للسرخسی(16/123) میں ہے:

{خلق لكم من أنفسكم أزواجا ‌لتسكنوا ‌إليها} [الروم: 21] وهو مشروع لمعنى الاتحاد في القيام بمصالح المعيشة؛ ولهذاجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم أمور داخل البيت على فاطمة رضي الله عنها وأمور خارج البيت على علي  رضي الله عنه، وبهما تقوم مصالح المعيشة فكان في ذلك كشخص واحد

تفسیرروح المعانی(11/3) میں ہے:

وهو الأوفق بقوله تعالى: ‌لتسكنوا ‌إليها أي لتميلوا إليها يقال: سكن إليه إذا مال فإن المجانسة من دواعي النظام والتعارف كما أن المخالفة من أسباب التفرق والتنافر وجعل بينكم أي بين الأزواج إما على تغليب الرجال على النساء في الخطاب أو على حذف ظرف معطوف على الظرف المذكور أي جعل بينكم وبينهن كما في قوله تعالى: لا نفرق بين أحد من رسله

تفسیرمعارف القرآن(6/735،736) میں ہے:

 اس کے بعد عورتوں کی اس خاص نوع کی تخلیق کی حکمت و مصلحت یہ بیان فرمائی” لتسكنوا اليها” یعنی ان کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تمہیں ان کے پاس پہنچ کر سکون ملے۔ مرد کی جتنی ضروریات عورت سے متعلق ہیں ان سب میں غور کیجئے تو سب کا حاصل سکون قلب اور راحت واطمینان نکلے گا، قرآن کریم نے ایک لفظ میں ان سب کو جمع فرما دیا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ ازدواجی زندگی کے تمام کاروبار کا خلاصہ سکون و راحت قلب ہے جس گھر میں یہ موجود ہے وہ اپنی تخلیق کے مقصد میں کامیاب ہے۔ جہاں قلبی سکون نہ ہو اور چاہے سب کچھ ہو وہ ازدواجی زندگی کے لحاظ سے ناکام و نامراد ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ باہمی سکون قلب صرف اسی صورت سے ممکن ہے کہ مرد و عورت کے تعلق کی بنیاد شرعی نکاح اور ازدواجی پر ہو، جن ممالک اور جن لوگوں نے اس کے خلاف کی حرام صورتوں کو رواج دیا اگر تفتیش کی جائے تو ان کی زندگی کو کہیں پرسکون نہ پائیں گے، جانوروں کی طرح وقتی خواہش پوری کر لینے کا نام سکون نہیں ہو سکتا۔

بدائع الصنائع (2/275) میں ہے:

لو لم یجب المهر بنفس العقد، لایبالي الزوج عن ازالة هذا الملک بأدنی خشونة تحدث بینهما؛ لأنه لا یشق ازالته لما لم یخف لزوم المهر؛ فلا تحصل المقاصد المطلوبة من النکاح

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved