- فتوی نمبر: 31-115
- تاریخ: 08 جولائی 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > حدود و قصاص > قتل کی حد
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کچھ لوگوں نے مل کر ایک آدمی کو قتل کیا پھر مقتول کے ورثا ء دیت پر راضی ہو گئے اور 40 لاکھ روپے دیت مقرر کی ۔
1۔ کیا یہ 40 لاکھ تمام قاتلوں پہ تقسیم ہوں گے یا ہر ایک سے الگ الگ 40 لاکھ لیے جائیں گے ؟
2 ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر مقتول کے ورثا ءقاتلوں میں سے کچھ کو معاف کر دیں اور کچھ سے دیت وصول کریں آیا ایسا کرنا جائز ہے ؟شریعت کی رو سے معلومات فراہم کر کے شکریہ کا موقع دیں ۔
وضاحت مطلوب ہے : (1) جن قاتلوں کو معاف کیا ہے تو کیا ان کے حصے کی دیت بھی معاف کردی یا وہ دیت دوسرے قاتل دیں گے ؟(2) 40 لاکھ روپے بعض قاتلوں کو معاف کرنے کے بعد مقرر ہوئے تھے یا پہلے پیسے مقرر ہوئے اور پھر بعض کو معاف کیا ؟
جواب وضاحت : (1)ان کی دیت کا حصہ معاف نہیں کیا ۔(2)پہلے پیسے مقرر ہوئے تھے بعد میں کچھ کو معاف کیا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مقتول کے ورثا ء اور قاتلوں میں باہمی رضامندی سے جو طے ہوا ہے اسی کے مطابق معاملہ ہوگا ۔لہذا اگر تمام قاتلوں سے مجموعی طور پہ 40 لاکھ روپے لینا طے ہوا ہے تو یہ رقم سب پر تقسیم ہوگی اور اگر سب قاتلوں کے ذمے علیحدہ علیحدہ 40 لاکھ روپے طے ہوئے ہیں تو سب کو الگ الگ یہ رقم ادا کرنا ہوگی۔
2۔اگر بعض قاتل اپنی رضا مندی سے اپنے دیگر قاتل ساتھیوں کے حصے کی دیت ادا کرنے پر تیار ہوجائیں تو ایسا کرنا ٹھیک ہے ۔ ان کی رضا مندی کے بغیر دیگر قاتلوں کے حصہ کی دیت ان سے وصول کرنا درست نہیں ۔
توجیہ : مذکورہ صورت میں بعض قاتلوں کے حصہ کی دیت دیگر قاتلوں سے وصول کرنا یہ حوالہ کی صورت بنتی ہے جس میں محیل وہ قاتل ہیں جنہیں معاف کردیا گیا اور محتال ورثاء مقتول ہیں جبکہ دیگر قاتل جو دیت کی ادائیگی کریں گے وہ محتال علیہ ہیں۔ اور حوالہ کے صحیح ہونے کے لیے محیل اور محتال کے ساتھ ساتھ محتال علیہ کی رضامندی بھی ضروری ہے ۔
1۔ ہدایہ (4/ 451) میں ہے :
«وإذا اصطلح القاتل وأولياء القتيل على مال سقط القصاص ووجب المال قليلا كان أو كثيرا»
المبسوط للسرخسی (26/ 157) میں ہے :
«والعفو عن أحد القاتلين لا يبطل القود عن الآخر، وكذلك الصلح مع أحدهما؛ لأن القصاص لزمهما بالقتل، ثم سقط أحدهما بالعفو ودم أحدهما متميز عن دم الآخر فسقوطه عن أحدهما لا يورث شبهة في حق الآخر»
فتاوی شامی (6/ 557) میں ہے :
«عفا الولي عن أحد القاتلين أو صالحه لم يكن له أن يقتص غيره كما في جواهر الفقه وغيره، لكن في قاضي خان وغيره أن له اقتصاصه قهستاني. قلت: وبالثاني أفتى الرملي كما في أول الجنايات من فتاواه»
ہدایہ(3/ 99) میں ہے :
قال: “وتصح الحوالة برضا المحيل والمحتال والمحتال عليه” أما المحتال فلأن الدين حقه وهو الذي ينتقل بها والذمم متفاوتة فلا بد من رضاه، وأما المحتال عليه فلأنه يلزمه الدين ولا لزوم بدون التزامه»
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved