• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بیوی ،بیٹی، دو بھائی اور چار بہنوں میں وراثت کی تقسیم

استفتاء

زید  مرحوم کا انتقال فروری 2016 میں ہوا ان کی واراثت میں ایک گھر میں حصہ اور ایک عدد  دکان  ہے ۔ان کے انتقال کے وقت ان کے والدین حیات نہیں تھے البتہ ان کے درج ذیل ورثاء حیات تھے:بیوی ،بیٹی، دو بھائی اور چار بہنیں ،پھر اس کے بعد انکے ایک بھائی  خالد صاحب  کا انتقال ہو گیا جن کے ورثاء میں  بیوی،دو بیٹے ،ایک بیٹی اور بقیہ بہن بھائی حیات تھے ،پھر اس کے بعد ان کی ایک بہن  زینب صاحبہ کا انتقال ہو گیا جس کے ورثاء میں ایک بیٹا،ایک بیٹی اور بقیہ بہن بھائی حیات تھے  اور ان کے شوہر ان سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے نیز واضح رہے کہ  زید  صاحب مرحوم کی وفات کے بعد ان کی دکان کا کرایہ ان کی اہلیہ اور بیٹی کو ملتا رہا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ:

1۔مرحوم کی وراثت کی شرعی تقسیم کس طرح  کی جائے گی؟

2۔دکان کا کرایہ ان کی اہلیہ اور بیٹی لیتی رہی ہیں اس کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ صورت میں مرحوم  زید  صاحب کے ترکے کے کل 1280حصے کیے جائیں گے جس میں سے بیوی کو 160حصے (12.5فیصد)،بیٹی کو 640حصے(50فیصد) موجود بھائی کو 120حصے (9.375فیصد) اور تینوں بہنوں میں سے ہر ایک 60 حصے (4.68فیصد)اور  خالد صاحب مرحوم کی بیوی کو15 حصے (1.17فیصد)اور ان کے دو بیٹوں میں سے ہر ایک کو 42حصے(3.28فیصد )اور ان کی بیٹی کو 21 حصے (1.64فیصد)اور  زینب  مرحومہ  کے بیٹے کو 40 حصے (3.125فیصد)اور بیٹی کو20حصے(1.56فیصد ) ملیں گے۔

2۔ دکان کا کرایہ جو مرحوم کی اہلیہ اور بیٹی استعمال کرتی رہی ہیں اس کا حکم یہ ہے کہ اگر سب ورثاء اس پر اپنی رضا مندی ظاہر کریں تو ان کا استعمال کرنا درست ہےاور اگر سب   یا بعض ورثاء اس کا مطالبہ کریں تو ان پیسوں میں ان کے ورثا ء کا جتنا حصہ بنتا ہے وہ ان کو واپس دینا پڑےگا۔

ردالمحتار(9/334) میں ہے:

لا يجوز التصرف فى مال غيره بلا إذنه ولا ولايته.

شرح المجلہ(4/14)میں ہے:

كل واحد من الشركاء فى شركة الملك اجنبى فى حصة الاخر ليس واحد وكيلا عن الاخر فلا يجوز تصرف أحدهما فى حصة الاخر بدون إذنه.

درر الحكام (1/ 690)میں ہے:

‌‌ (المادة 597) لا يلزم ‌ضمان ‌المنفعة في مال استعمل بتأويل ملك، ولو كان معدا للاستغلال. مثلا لو تصرف مدة أحد الشركاء في المال المشترك بدون إذن شريكه مستقلا، فليس للشريك الآخر أخذ أجرة حصته؛ لأنه استعمله على أنه ملكه. لا يلزم ‌ضمان ‌المنفعة في مال استعمل أو عطل بتأويل……ويستفاد من المثال أن ذلك خاص باستعمال الشريك بالذات، ولا دخل لإيجاره من آخر؛ لأن الشريك إذا لم يستعمل المال المشترك مستقلا بنفسه وأجره كله من آخر وأخذ أجرته لزمه رد أجرة شريكه إليه. مثلا لو آجر أحد الشركاء الحمام المشترك بين ثلاثة ولكل منهم ثلثه من آخر وأخذ أجرته لزمه أن يعطي لشريكيه ثلثي الأجرة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved