• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

والد کے دباؤمیں آ کر طلاقناموں پر دستخط کرنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے اپنی فیملی کے پریشر میں آ کر ایک ہی وقت میں تین طلاقیں لکھ کر بیوی کے ماں باپ کے گھر بھیج دی ہیں، پریشر کی نوعیت یہ تھی کہ میں جب چھوٹا تھا تو والدہ کا انتقال ہو گیا اور میرے والد صاحب نے دوسری شادی کر لی، میں شادی کے بعد سے علیحدہ گھر میں رہتا ہوں، پہلے دن سے ہی میری بیوی میرے والد صاحب اور سوتیلی والدہ کو ناپسند تھی، انہوں نے کہا کہ اگر ہم سے تعلق رکھنا ہے تو بیوی کو طلاق دے دو، ورنہ ہمارا تمہارا تعلق ختم ہو گا، میرے لیے والد کی بات کا انکار کرنا بہت مشکل تھا، میرے والد اس سے پہلے مجھے عاق بھی کر چکے ہیں، اس لیے ان کے دباؤ میں آ کر میں نے بیوی کو طلاق دے دی۔میری بیوی میرے پانچ بچوں کے ساتھ الگ گھر میں رہتی ہے، میری طلاق دینے کی بالکل نیت نہیں تھی، میں بیماری کی وجہ سے جسمانی اور ذہنی طور پر سو فیصد ٹھیک نہیں ہوں، چل پھر نہیں سکتا وہیل چیئر پر ہوں، میری بیوی ہی میری دیکھ بھال کرتی ہے، مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہو گئی ہے یا نہیں؟ اگر طلاق واقع ہو گئی ہے تو صلح کی کیا صورت ہے؟ طلاقنامے اور میڈیکل رپورٹ ساتھ لف ہے۔

نوٹ: رپورٹ کے مطابق سائل کی ریڑھ کی ہڈی میں چوٹیں لگی ہیں جن کی وجہ سے وہ  چل پھر نہیں سکتا، اور ذہنی صحت کی رپوٹ نہیں ہے، سائل سے فون پر بات ہوئی تو اس نے کہا کہ ذہنی صحت کا زیادہ مسئلہ نہیں، میں ذہنی بیماری کا کچھ دیر علاج کرواتا رہا ہوں، لیکن طلاق کے کاغذات پر دستخط کرتے وقت میں اپنے ہوش حواس میں تھا، اور مجھے معلوم تھا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ نیز پہلے طلاقنامے کی تاریخ 04-08-2020سے لے کر تیسرے طلاقنامے کی تاریخ 06-10 -2020 تک بیوی کو دو ماہواریاں آ چکی تھیں، تیسری ماہواری ابھی نہیں آئی تھی۔

طلاقنامہ اول کی عبارت: ’’۔۔۔۔۔۔چنانچہ الحال بقائمی ہوش و حواس خمسہ بلا اجبار واکراہ رضامندی خود مسماۃ درخشاں فیصل دختر محمد شفاء کو نوٹس طلاق اول دے کر اپنی زوجیت سے خارج کرتا ہوں اور اپنے نفس پر حرام کرتا ہوں آج سے مسماۃ درخشاں فیصل دختر محمد شفاء مذکورہ بالا سے میرا کوئی تعلق واسطہ نہ ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘  مؤرخہ: 04-08-2020

طلاقنامہ دوئم کی عبارت: ’’۔۔۔۔۔۔چنانچہ الحال بقائمی ہوش و حواس خمسہ بلا اجبار واکراہ رضامندی خود مسماۃ درخشاں فیصل دختر محمد شفاء کو نوٹس طلاق دوئم دے کر اپنی زوجیت سے خارج کرتا ہوں اور اپنے نفس پر حرام کرتا ہوں آج سے مسماۃ درخشاں فیصل دختر محمد شفاء مذکورہ بالا سے میرا کوئی تعلق واسطہ نہ ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘  مؤرخہ: 07-09-2020

طلاقنامہ سوئم کی عبارت:  ’’۔۔۔۔۔۔چنانچہ الحال بقائمی ہوش و حواس خمسہ بلا اجبار واکراہ رضامندی خود مسماۃ درخشاں فیصل دختر محمد شفاء کو نوٹس طلاق سوئم دے کر اپنی زوجیت سے خارج کرتا ہوں اور اپنے نفس پر حرام کرتا ہوں آج سے مسماۃ درخشاں فیصل دختر محمد شفاء مذکورہ بالا سے میرا کوئی تعلق واسطہ نہ ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘  مورخہ: 06-10-2020

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرچہ آپ نے والد صاحب کے دباؤمیں آ کر طلاقناموں پر دستخط کیے ہیں لیکن چونکہ یہ دباؤ ایسا نہیں تھا جوشرعا قابل اعتبار ہو لہذا مذکورہ صورت میں طلاقناموں کی رو سے آپ کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے آپ کی بیوی آپ پر حرام ہو گئی ہے،لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے، البتہ اگر آپ کی بیوی عدت گزرنے کے بعد کسی سے نکاح کر لے اور نکاح کے بعد ہمبستری بھی ہو جائے اور دوسرا شوہر اپنی مرضی سے اسے طلاق دید ے اور پھر عدت بھی گزرجائے تو وہ آپ کے ساتھ نیا نکاح کر کے رہ سکتی ہے۔

درمختار مع ردالمحتار (9/217) میں ہے:

وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ.

(قوله: وهو نوعان) أي الإكراه، وكل منهما معدم للرضا لكن الملجئ، وهو الكامل يوجب الإلجاء، ويفسد الاختيار فنفي الرضا أعم من إفساد الاختيار والرضا بإزاء الكراهة، والاختيار بإزاء الجبر ففي الإكراه بحبس أو ضرب لا شك في وجود الكراهة وعدم الرضا وإن تحقق الاختيار الصحيح إذ فساده إنما هو بالتخويف بإتلاف النفس، أو العضو.

رد المحتار (443/4) میں ہے:

وفي التتارخانية:…………… ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] .

عالمگیری (473/1) میں ہے:

وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved