• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مہر کا زیور مسجد میں دینے کی وصیت

استفتاء

کیا فرماتے ہیں محترم جناب اس بارے میں کہ ایک خاتون ہے جس کی شادی ہوئی اور اس کا حق مہر ہے اور اس کی کوئی اولاد بھی نہیں ہے اور اس نے یہ وصیت کی ہے کہ میر احق مہر بصورت زیور کے میرے شوہر کو نہیں دینا بلکہ میرا حق مہر جو ہے اسے میرے کفن دفن اور مسجد وغیرہ میں دیدینا  ۔آیا اس عورت کے حق مہر میں شوہر کا حق ہے یا نہیں وہ لے سکتا ہے کہ نہیں ؟براہ کرم اس پر شرعی روشنی ڈال کر دلائل سے واضح فرمائیں جزاکم اللہ۔

وضاحت مطلوب ہے کہ :  مذکورہ خاتون حیات ہیں یا فوت ہو چکی ہیں ؟ سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے ؟ مذکورہ خاتون کے والدین ، بہن   ،بھائی یا بہن بھائیوں کی اولاد میں سے کون کون زندہ ہیں ؟ خاتون نے ترکے میں حق مہر کے علاوہ بھی کوئی مال چھوڑا ہے ؟  اگر چھوڑا ہے تو کیا زیور کل مال کا ایک تہائی بنتا ہے یا اس سے کم زیادہ ہے ؟

جواب وضاحت :  خاتون فوت ہو چکی ہے  ۔والدین بھی فوت ہو چکے ہیں ۔ہم چار بھائی ہیں اور ایک ہی  بہن تھی جو فوت ہو گئی ہےاور اسی کی میراث کے متعلق سوال ہے۔ کل مال زیور ہی ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں کل زیور میں سے ایک تہائی زیور کو  اس خاتون کی وصیت کے مطابق گھر کی قریبی  مسجد میں  دے دیا جائے  باقی زیور اس کےشوہر سمیت تمام  ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا ۔ جس کی تقسیم حسب ذیل ہوگی  : مرحومہ  کے باقی زیور کے 8 حصے کیے جائیں گے جن میں سے شوہر کو 4 حصے (50 فیصد) ، چار بھائیوں میں سے ہر ایک کو ایک حصہ (12.5 فیصد)  ملے گا ۔ البتہ  اگر  تمام ورثاء بالغ ہوں  اور وہ سب اپنی رضامندی سے اپنے اپنے حصہ کا  زیور مسجد میں دینے پر تیار ہوں تو سارا زیور   مسجد میں دیا جاسکتا ہے۔

ہدایۃ  (4/ 513) میں ہے :

ولا تجوز بما زاد على الثلث” لقول النبي عليه الصلاة والسلام في حديث سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه: “الثلث والثلث كثير ……..قال: “إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار” لأن الامتناع لحقهم وهم أسقطوه»

فتاوی شامی  (4/ 445) میں ہے :

فإذا ‌أطلقها ‌الواقف انصرفت إليها لأنها هي الكاملة المعهودة في باب الوقف، وإن كان الكامل عكسها في باب الصدقة فالتسوية بينهما غير صحيحة، على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة، وصرح الأصوليون بأن العرف يصلح مخصصا

مسائل بہشتی زیور (2/492) میں ہے :

“جتنا مال چھوڑا ہے اس کی تہائی میں سے اگر وصیت پوری ہوجائے تو اس کو پورا کریں گے مثلاً ایک شخص نے ترکہ میں چار ہزار روپے چھوڑے۔ کفن دفن اور قرضے میں ایک ہزار روپے خرچ ہوئے۔ تین ہزار روپے باقی بچے۔ اب اس کی ایک تہائی یعنی ایک ہزار روپے میں سب وصیتیں پوری ہوجائیں تب تو وصیت کو پورا کریں گے۔اگر وصیت زائد مال کی ہو تو اس میں یہ صورتیں ہیں : تہائی مال سے زیادہ لگانا وارثوں کے ذمہ واجب نہیں ۔ البتہ اگر سب وارث بخوشی رضامند ہوجائیں کہ ہم اپنا اپنا حصہ نہ لیں گے اس کو بھی وصیت میں لگا دو تو تہائی سے زیادہ بھی وصیت میں لگانا جائز ہے لیکن نابالغوں کی اجازت کا بالکل اعتبار نہیں ہے وہ اگر اجازت بھی دیں تب بھی ان کا حصہ وصیت میں لگانا درست نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved