- فتوی نمبر: 33-339
- تاریخ: 02 اگست 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > متفرقات خاندانی معاملات
استفتاء
میں **** زوجہ ****ہوں جن سے میرے دو بچے ہیں ۔میرے شوہر نے مجھے ایک طلاق 20-07-27 کو لڑائی جھگڑے کے دوران غصے کی حالت میں ڈرانے کی نیت سے دی کہ میں آپ کو ڈائیورس (Divorce) دے رہا ہوں ۔صرف ایک مرتبہ کہا ، جس پر میں نے ان کو روکا کہ آپ سوچ لیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں پھر انہوں نے کہا کہ آپ اپنا سامان پیک کر لیں اور میں آپ کو آپ کے والدین کے گھر چھوڑ رہا ہوں اور طلاق کے پیپر بعد میں آپ کے گھر پہنچ جائیں گے ،جبکہ میں ****ان کے ساتھ ہی رہتی رہی اور اس کے بارے میں فتوی دارالافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیہ سے لیا ان کا جواب یہ آیا کہ یہ ایک طلاق واقع ہو گئی ہے اور آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا مالک رہے گا۔اور بیوی کے ساتھ نکاح بچانے کے لیے شوہر بیوی سے کہے میں آپ سے رجوع کرتا ہوں یا بیوی کے ساتھ زوجین والے تعلقات قائم کر لے ۔لہذا اگر دونوں نے مذکورہ صورتوں میں سے کسی صورت میں رجوع کر لیا تو پھر نکاح بحال ہے ۔اور پھر ہم نے رجوع کر لیا تھا۔یہ مسئلہ تقریبا پانچ سال پہلے پیش آیا تھا ۔
حالیہ واقعہ یہ ہوا کہ 25-07-05 نو محرم بروز ہفتہ کو جبکہ میں روزے کی حالت میں تھی میں عصر کی نماز پڑھ رہی تھی کہ دونوں بچیاں آپس میں لڑ پڑیں ۔ میں نے تیزی سے سلام پھیرا اور تیزی سے کمرے کی طرف گئی اور شوہر جب کہ کچن میں موجود تھے میں نے ان سے کہا کیا آ پ بچیوں کو دیکھ نہیں سکتے تھے ہم بھی آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور اب بچیاں بھی لڑ رہی ہیں۔ یہ کہتی ہوئی میں کمرے میں پہنچی میں نے بچوں کو چپل سے دو دو لگائے اور ان کو چپل دی اور کہا کہ لڑ لو ۔یہ کہہ کر میں باہر آنے لگی تو میرے شوہر نے کمرے کے دروازے پر مجھے تھپڑ مارے اور گلے سے پکڑ لیا اور پھر میں پیچھے گر گئی اور پھر سے انہوں نے گلا اور منہ دونوں کو دبایا اور میرے اوپر پیر رکھ لیا۔ میں نے ،میرے بچوں نے اور میرے سسر نے ان کے چنگل سے آزاد کرایا اور میں باہر کی طرف بھاگی تو انہوں نے بچیوں کے سامنے مجھ سے کہا کہ : “میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں یہ لفظ اسی طرح صرف دو دفعہ دہرائے ۔یہ قدم بچیوں کو مارنے کی وجہ سے اٹھایا ۔اس سلسلہ میں درج ذیل سوالات ہیں :
سوال نمبر 1 : کیا یہ طلاق ہو گئی ہے ؟
سوال نمبر 2 : کیا رجوع کا کوئی طریقہ ہے ؟
سوال نمبر 3 : عدت کب سے شروع ہوگی اور کب تک ہوگی ؟ اور بچیوں اور بیوی کی کفالت کس کے ذمے ہوگی ؟
سوال نمبر 4 : مسلک بدل کر رجوع کیا جا سکتا ہے ؟
دارالافتاء سے بذریعہ فون شوہر سے رابطہ کیا گیا جس پر اس نے درج ذیل بیان دیا ۔
شوہر کا بیان :
میں نے شدید غصہ کی حالت میں بیوی کو طلاق کے مذکورہ الفاظ دو مرتبہ کہے ہیں اس سے پہلے بھی ایک طلاق دی تھی ۔ اس واقعہ میں میرے والد بھی موجود تھے۔ ان کے روکنے کے باوجود میں نہیں رکا۔ غصہ اگرچہ بہت شدید تھا لیکن مجھے اتنا ہوش تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔اس دوران کوئی خلاف عادت فعل سرزد نہیں ہوا مثلا ً میں نے والد صاحب سے کوئی بد زبانی نہیں کی ۔
بیوی کی طرف سے وضاحت :
غصہ کی حالت میں کوئی خلاف عادت بات ان کی طرف سے نہیں ہوئی ۔ نہ خود کو مارا نہ کوئی توڑ پھوڑ کی۔ میرے اوپر ہاتھ اٹھانا بھی پہلی دفعہ نہیں ہوا ۔ پہلے بھی غصہ میں ایسا ہوچکا ہے ۔ لیکن اس دفعہ غصہ کی شدت پہلے سے زیادہ تھی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1،2)مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ۔ لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے ۔
توجیہ : مذکورہ صورت میں طلاق دیتے وقت اگرچہ شوہر کو بہت شدید غصہ تھا لیکن اتنا شدید نہیں تھا کہ انہیں اپنی کہی ہوئی بات کا علم ہی نہ ہو اور نہ ہی اس سے خلاف عادت افعال و اقوال صادر ہوئے اس لیے اس حالت میں کہے گئے جملوں سے دو رجعی طلاقیں واقع ہوگئیں جو کہ پانچ سال پہلے دی گئی ایک طلاق کے ساتھ مل کر تین مکمل ہوگئیں ۔ اور بیوی شوپر حرام ہوگئی۔
(3) جس وقت شوہر نے دو طلاقیں دی تھیں اسی وقت سے عدت شروع ہوگئی ۔ اور تین ماہواریاں مکمل ہونے تک عدت ہے ۔عدت کے دوران بیوی کا خرچہ شوہر کے ذمہ ہے ۔عدت کے بعد عورت کہیں اور نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔ بچیاں چاند کے حساب سے نو سال کی عمر تک ماں کی پرورش میں رہیں گی اس کے بعد باپ ان کو اپنی پرورش میں لے سکتا ہے ۔البتہ جب تک بچیوں کی شادی نہ ہوجائے اس وقت تک ان کا خرچہ باپ کے ذمہ ہوگا چاہے وہ ماں کی پرورش میں ہی ہوں ۔
(4) تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں یا الگ الگ وہ تین ہی ہوتی ہیں اس کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے پر حرام ہوجاتے ہیں ۔ یہ مسلک جمہور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امام ابوحنیفہ ؒ ، امام مالک ؒ ؒ ، امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ سمیت جمہور امت کا ہے ۔تین طلاق کے بعد اگر میاں بیوی اکٹھے رہیں گے تو زندگی بھر بدکاری کے مرتکب ہوں گے۔
(1،2)در مختار مع رد المحتار (509/4) میں ہے:
كرر لفظ الطلاق وقع الكل قوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قدطلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.
بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره
در مختار مع رد المحتار(4/439) میں ہے:
وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله. الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. اه
(وبعد أسطر) فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل .
(3) فتاوی مفتی محمود (7/349) میں ہے
’’ عدت کا نفقہ شوہر کے ذمہ لازم ہے، اس کی کوئی تعیین شرط نہیں، اتنا ہو جتنا شوہر کے حالات کے مناسب ہو۔‘‘
الدر المختار (3/566) میں ہے:
(والحاضنة) أما أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لانه الغالب (والام والجدة) لام أو لاب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية.ولو اختلفا في حيضها فالقول للام
وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب (وغيرهما أحق بها حتى تشتهي) وقدر بتسع، وبه يفتى
عمدۃ القاری شرح صحيح بخاری (1/232)میں ہے :
مذهب جماهير العلماء من التابعين ومن بعدهم من الاوزاعي والنخعي والثوري و ابو حنيفه واصحابه ومالك واصحابه والشافعي واصحابه واحمد واصحابه و اسحاق وابو ثور وابو عبيدة واخرون كثيرون على ان من طلق امراته ثلاثا يقعن ولكنه ياثم.
(4) فتاوی ہندیہ (1/ 563) میں ہے :
ونفقة الإناث واجبة مطلقا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال كذا في الخلاصة.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved