• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بیوی کے لیے وصیت کرنےکا حکم

استفتاء

میرا نام  زید ہے۔ میری ایک بیوی ، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹی شادی شدہ ہے۔ میں اپنا مکان سیل (فروخت ) کرنے کی کوشش میں لگا ہوں کیا میں اپنی زندگی میں بیوی کو وصیت کر سکتا ہوں کہ میرے انتقال کے بعد اگر مکان سیل (فروخت )   ہوتا ہے تو پوری رقم میری بیوی کو ادا کی جائے کیونکہ میرے اوپر کافی قرضہ ہے میری بیوی سب سے پہلے میرے قرضے ادا کرے اس کے بعد باقی رقم ایک بیٹا اور دونوں بیٹیوں کے درمیان اپنے حساب سے تقسیم کردے۔ اس میں شرعی حکم کیا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ مذکورہ وصیت کریں یا نہ کریں شرعاً آپ کے مال میں سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا اور اس کے بعد جو مال بچے گا وہ ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوگا تاہم اگر آپ مذکورہ وصیت کریں اور ورثاء اس پر آپ کی وصیت کے مطابق عمل کریں تو اس میں بھی کچھ حرج نہیں لیکن اس وصیت کی حیثیت صرف انتظامی ہوگی اس کی وجہ سے بیوی آپ کے کل مال کی مالک نہ بنے گی۔

ہندیہ (6/90) میں ہے:

ولا تجوز الوصية للوارث عندنا الا ان يجيزها الورثة.

سراجی (ص:5) میں ہے :

يبدأ بتكفينه وتجهيزه من غير تبذير ولا تقتير ثم تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله ثم تنفل وصاياه من ثلث ما بقي بعد الدين ثم يقسم الباقي بين ورثته بالكتاب والسنه والاجماع.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved