- فتوی نمبر: 33-367
- تاریخ: 04 اگست 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > صریح و کنایہ دونوں طرح کے الفاظ سے طلاق دینا
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ ایک عورت اقرار کر رہی ہے کہ میرے خاوند نے مجھے تین بار کہا ہے کہ میں نے تجھے طلاق دی ، میں نے تجھے طلاق دی ،میں نے تجھے طلاق دی ۔اس بات پر وہاں موجود بہت سی خواتین بھی گواہ ہیں۔ لیکن خاوند اس بات سے انکاری ہے وہ کہتا ہے میں نے ایسا نہیں کہا بلکہ میں نے کہا ہے تجھے چھوڑ دوں گا پہلے بھی تجھے چھوڑا تھا ۔اس مسئلے میں قرآن و سنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں کہ طلاق ہو گئی ہے یا نہیں ہوئی ؟ اس رہنمائی پر اللہ تعالی آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔
یہ سوال لڑکی کے والد کی طرف سے بھیجا گیا جو مفتی منظور صاحب نے جمع کروایا ۔ لیکن جب دارالافتاء سے لڑکی سے رابطہ کیا گیا تو اس نے مذکورہ بالا سوال سے مختلف بیان دیا ۔
بیوی کا بیان :
شوہر نے لڑائی کے دوران تین مرتبہ پشتو میں یہ جملے بولے تھے ” زو تالاطلاق در کوم زمہ د ڈڈی فارغ ای ” اردو ترجمہ :میں تمہیں طلاق دیتا ہوں تم میری طرف سے فارغ ہو ۔ میں نے یہ جملے خود سنے ہیں ۔ میں اس پر قسم اٹھا نے کو تیار ہوں ۔ وہاں گھر کی کئی خواتین موجود تھیں جنہوں نے یہ الفاظ سنے ۔لیکن میرا شوہر کسی مجلس میں کہتا ہے کہ میں نے ایک دفعہ یہ جملہ بولا ہے اور کبھی دو دفعہ کا اقرار کرتا ہے ۔ اس کا ہم سے رابطہ بھی نہیں ہے ہمارا نمبر وہ لوگ نہیں اٹھاتے ۔
بیوی کی والدہ کا بیان :
تقریبا ً پانچ بجے کا ٹائم تھا میں نے خود سنا ہے اس نے تین دفعہ طلاق کا لفظ بولا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ “تہ پہ ما طلاقہ ای ” کہ تو مجھ پر طلاق ہے اور یہ بھی کہا کہ تم آزاد ہو ۔
پڑوس کے ایک مرد کا بیان :
ہم ( میں اور میری بیوی )اپنے گھر کی چھت پر تھے ۔ ان کا گھر ہمارے ساتھ ہی ہے ۔ میں نے یہ الفاظ سنے تھے ۔ میں نے تمہیں طلاق دے دی۔ تم سے کوئی بوڑھا ہی شادی کرے گا جوان نہیں کرے گا ۔ یہ جملے تین سے زیادہ مرتبہ کہے تھے۔
پڑوسی کی بیوی کا بیان :
میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ۔ میری طرف سے تم آزاد ہو ۔ یہ جملہ دو دفعہ بولا اس کے بعد کہا تھا ” اپنا سامان اٹھاؤ تم سے کوئی بوڑھا ہی شادی کرے گا جوان نہیں کرے گا “۔
دارالافتاء سے لڑکے کے والد کے نمبر پر متعدد بار رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا ۔ لڑکے کے پا س اپنا کوئی نمبر نہیں ہے ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں بیوی نے جب طلاق کے الفاظ خود سنے ہیں اور طلاق دینے کے متعدد گواہ بھی ہیں تو شوہر کا انکار کرنا شرعاً درست نہیں لہٰذا مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ۔ لہٰذا اب نہ صلح ہوسکتی ہے اور نہ رجوع کی گنجائش ہے ۔
بدائع الصنائع(3/295) میں ہے:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.
فتاویٰ شامی (449/4) میں ہے:
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه
فتاوی شامی (3/ 306) میں ہے :
(لا) يلحق البائن (البائن) إذا أمكن جعله إخبارا عن الأول«(قوله الصريح يلحق الصريح) كما لو قال لها: أنت طالق ثم قال أنت طالق أو طلقها على مال وقع الثاني بحر، فلا فرق في الصريح الثاني بين كون الواقع به رجعيا أو بائنا (قوله ويلحق البائن) كما لو قال لها أنت بائن أو خلعها على مال ثم قال أنت طالق أو هذه طالق بحر عن البزازية، ثم قال: وإذا لحق الصريح البائن كان بائنا لأن البينونة السابقة عليه تمنع الرجعة كما في الخلاصة.»
خلاصۃ الفتاویٰ (2/82) میں ہے:
فلو قال لإمرأته أنت طالق ثم قال للناس: “زن من بر من حرام است” وعنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعى بائنا وان عنى به الابتداء فهى طالق آخر بائن.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved