• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پیشگی تھوڑی تھوڑی رقم دے کر سونا لینا

استفتاء

ماہانہ قسطوار پیسہ جمع کرکے آخر میں سونا خریدنا کیسا ہے؟  جبکہ ایسا کرنے سے خریدار کو ضائع شدہ مال کی رقم کی قیمت ادا کرنے کی بھی چھوٹ ہوتی ہے اور اس معاملے سے دونوں فریق راضی بھی ہیں۔

وضاحت مطلوب ہے: مذکورہ معاملے کی مکمل تفصیل ذکر کریں۔

جواب وضاحت: کچھ سونے کی دکانیں  ایسی  ہیں جس میں ماہانہ ہزار، پانچ ہزار روپے جمع کر تے ہیں 12 مہینے 15 مہینے جمع کرنے کے بعد اس وقت سونے کا جو ریٹ ہوتا ہے اس حساب سے سونا خرید لیتے ہیں اس کا فائدہ خریدنے والے کو یہ ہوتا ہے کہ زیور بنانے میں جو سونا ضائع ہوتا ہے یا بنانے کی جو مزدوری ہوتی ہے اس کی چھوٹ ہوتی ہے سونے کی جو قیمت ہوتی ہے اس میں کچھ کمی نہیں کرتے اور اس معاملہ میں دونوں فریق راضی بھی ہوتے ہیں اور جو غریب طبقہ ہے ان کے لیے سونا خریدنا آسان بھی ہوتا ہے شریعت کی  رو سے  ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟

مزید وضاحت مطلوب ہے: جب تک سونا نہیں خریدتے اس وقت تک دکاندار اس رقم کو استعمال کرتا ہے ؟ اگر کرتا ہے تو کیا  رقم جمع کرنے والے کی اجازت سے استعمال کرتا ہے؟ خرید و فروخت کا معاملہ کس مرحلے پر ہوتا ہے؟ خریدنے سے پہلے اگر جمع شدہ رقم ضائع ہو جائے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟

جواب وضاحت: دکاندار اس رقم  کو استعمال کرتا ہے اور رقم جمع کروانے  والے کی طرف سے اسکی اجازت بھی ہوتی ہے ۔جب 12 مہینے مکمل ہو جائیں  تو اس وقت  جتنی رقم جمع ہوتی ہے اس کے ساتھ اور رقم جمع کر کے یا جتنی رقم جمع ہے اس سے مال خریدا جاتا  ہے مثال کے طور پر 12 مہینے جمع کی  ہوئی  رقم 60 ہزار روپے ہے اب اس رقم سے چھ گرام سو نا خرید سکتا ہے ۔اب وہ سونا زیور کی شکل میں خرید رہا ہے تو زیور بنانے میں کچھ مال ضائع بھی ہوتا ہے اور بنانے کی مزدوری بھی ہوتی ہے تو پہلے سے ہی دکاندار کی طرف سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمارے پاس ماہانہ جو پیسے جمع کر کے  مال خریدتا ہے اس کو میکنگ چارج اور ویسٹ چارج میں 16 فیصد تک معاف ہے۔ اب یہ چھ گرام سونا زیور کی شکل میں جب خریدتا ہے تو اس میں تقریبا دس فیصد سے 14 یا 16 فیصد تک ویسٹ آتا ہے (جو کہ تقریبا چھ یا آٹھ ہزار روپیہ کا ہوتا ہے)اب یہ قسطوار پیسہ جمع کرنے والا اس ویسٹ (چارج)پیسے کو ادا  کیے بغیر اس چھ گرام سونے کو 60 ہزار روپے کے بدلے میں خرید لیتا ہے (جو کہ اس وقت سونے کی قیمت ہوتی ہے) ! جمع شدہ رقم ضائع ہونے کی صورت میں دکاندار اسکا ذمہ دار ہوگا۔

وضاحت مطلوب ہے: کیا جس وقت گاہک دکاندار کورقم جمع کروانا شروع کرتا ہے اس وقت زیور کی مقدار اور ڈیزائن اور وقت طے ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے؟

جواب وضاحت: جتنی رقم جمع ہوگی اس کے حساب سے زیور کی مقدار ہوگی نہ زیور کی مقدار طے ہوتی ہے اور نہ ڈیزائن صرف اتنا طے ہوتا ہے کہ متعین پیسہ جمع ہونے کے بعد تین سے چھ مہینے کے اندر زیور خرید لیں یا جو اپنا پیسہ جمع کیا ہے وہ واپس لے لیں  جمع  شدہ رقم میں سے کچھ کاٹا نہیں جائے گا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ معاملہ جائز نہیں۔

توجیہ: گاہک کے دکاندار کے پاس پیشگی تھوڑی تھوڑی رقم جمع کرانے کی حیثیت قرض کی ہے کیونکہ اس کے ہلاک ہونے کی وجہ سے دکاندار  اس کا ضامن ہوتا ہے اور اس قرض پر گاہک  دو طرح سے نفع حاصل کر رہا ہے ایک تو اس طرح کہ اس کی رقم محفوظ ہو جاتی ہے دوسرا اس طرح کہ اس قرض کی بناء پر اسے دکاندار کی طرف سے میکنگ اور ویسٹ چارجز معاف کیے جاتے ہیں جبکہ قرض پر نفع لینا سود ہے اور ناجائز ہے۔

نیز مذکورہ صورت میں قرض اور بیع کو جمع کیا جا رہا ہے جو کہ شرعی لحاظ سے ناجائز ہے چونکہ مذکورہ صورت میں زیور کا ڈیزائن اور مقدار وغیرہ بھی طے نہیں ہوئے اس لیے اس صورت کو استصناع پر بھی محمول نہیں کیا جا سکتا لہذا مذکورہ صورت اختیار کرنا ناجائز ہے۔

البحر الرائق (8/203) میں ہے:

‌ومن ‌وضع ‌عند ‌بقال درهما يأخذ منه ما شاء كره له ذلك؛ لأنه إذا ملكه الدرهم فقد أقرضه إياه وقد شرط أن يأخذ منه من البقول وغيرها ما شاء وله في ذلك نفع بقاء الدرهم وكفايته للحاجات ولو كان في يده لخرج من ساعته ولم يبق فصار في معنى قرض جر نفعا وهو منهي عنه.

الدر المنتقیٰ (4/225) میں ہے:

ويكره أن يقرض بقالا كخباز وغيره برا أو درهما لخوف أن يهلك لو كان في يده مثلا ليأخذ منه به ما يحتاج إليه بحسابه إلى أن يستغرقه لأنه قرض جر نفعا .

مرقاۃ المفاتیح (5/1938)  میں ہے:

(وعنه) أي عن ابن عمر (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا ‌يحل ‌سلف) بفتحتين (وبيع) أي معه يعني مع السلف بأن يكون أحدهما مشروطا في الآخر

بدائع الصنائع (5/3) میں ہے:

وأما شرائط جوازه (فمنها) : بيان جنس المصنوع، ونوعه وقدره وصفته؛ لأنه لا يصير معلوما بدونه.

(ومنها) : أن يكون مما يجري فيه التعامل بين الناس من أواني الحديد والرصاص، والنحاس والزجاج، والخفاف والنعال، ولجم الحديد للدواب، ونصول السيوف، والسكاكين والقسي، والنبل والسلاح كله، والطشت والقمقمة، ونحو ذلك – ولا يجوز في الثياب؛ لأن القياس يأبى جوازه، وإنما جوازه  استحسانا  لتعامل الناس، ولا تعامل في الثياب.

(ومنها) : أن لا يكون فيه أجل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved