• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کیا بھائیوں کے ہوتے ہوئے بھتیجے، بھتیجیاں وارث ہوں گی؟

استفتاء

ایک شخص کا انتقال ہوا اس کے ورثاء میں بیوی، دو بیٹیاں اور چار بھائی ہیں۔ اس  کا کوئی بیٹا نہیں ہے اور اس  کے والدین پہلے ہی فوت ہوچکے ہیں تو اس کی وراثت کے بارے میں کیا حکم ہے؟ مرحوم کے بھتیجے، بھتیجیاں  بھی ہیں تو کیا مرحوم کے بھتیجے، بھتیجیاں  بھی وراثت میں حقدار ہوں گی اور اگر ہوں گی  تو بھتیجیوں کا کتنا حصہ ہوگا اور بھتیجوں کا کتنا  حصہ ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بھائیوں کی موجودگی میں شرعاً  بھتیجے، بھتیجیاں  وراثت میں حصے دار نہیں ہوں گے اور بقیہ ورثاء میں وراثت کی تقسیم اس طریقہ سے ہوگی کہ مرحوم کے کل ترکہ کے 96 حصے کیے جائیں گے جن میں سے 12 حصے(12.5فیصد) بیوی  کو،اور ہر بیٹی کو 32 حصے(33.33 فیصد فی کس)،اور ہر بھائی کو 5 حصے(5.20 فیصد فی کس)ملیں گے۔

صورت تقسیم درج ذیل ہے:

24×4=96

بیوی2 بیٹیاں4 بھائی
ثمنثلثانعصبہ
3165
3×416×45×4
126420
1232+325+5+5+5

شامی (6/774) میں ہے:

‌ثم ‌العصبات ‌بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر (عصبة وذا سهم) كما مر (ثم الجد الصحيح) وهو أبو الأب (وإن علا) وأما أبو الأم ففاسد من ذوي الأرحام (ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب (وإن سفل) تأخير الإخوة عن الجد وإن علا قول أبي حنيفة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved